بیوہ، ۳ بیٹیاں، دو بھائی اور دو بہنوں کے درمیان تقسیم میراث

سوال:زید کا انتقال ہوا۔ لواحقین میں بیوہ، ۳ بیٹیاں، دو حقیقی بھائی، دو حقیقی بہنیں اور بھائوں کے ۵ بیٹے ہیں۔ میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟.

الجواب باسم ملہم الصواب

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائےاور اگر مرحوم نے بیوی كا حق مہر ادا نہیں كیا تھا اور بیوی نےبرضا و رغبت معاف بھی نہیں كیا تو وہ بھی قرض كى طرح واجب الادا ہے، اُسے بھی ادا كیا جائے۔

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایک تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4⃣ اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے 144 برابر حصے کیے جائیں ۔

جس میں سے:

• بیوی کو 18 حصے

• ہر بیٹی کو 32 حصہ

• ہر بھائی کو 10 حصے

• ہر بہن کو 5 حصے

دیے جائیں گے۔ بھائیوں کے بیٹے کو کچھ نہیں ملےگا۔

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہوگی:

• بیوی کو 12.5%

• ہر بیٹی 22.22%

• ہر بھائی کو 6.94%

• ہر بہن کو 3.47%

• لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا تَرَكَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ اَوۡ كَثُرَ ‌ؕ نَصِيۡبًا مَّفۡرُوۡضًا‏ {سورۃ النساء، آیۃ ۷}

فقط۔ واللہ خیر الوارثین

۱۴ شعبان ۱۴۴۳ ھ

۱۸ مارچ ۲۰۲۲

اپنا تبصرہ بھیجیں