بیع استجرار

فتویٰ نمبر:504

سوال:قصاب کو روپے پیشگی دیدیے  اور گوشت کے دام میں فی کلو ٹھرالئے جو بازار کے نرخ سے کچھ کم ہوتا ہے مثلاً بازار میں ۱۰۰ روپے کلو بکتا ہے لیکن ۹۵ روپے کلو ٹھیرالیا گوشت آتا رہا اسکی یاد داشت رکھ لی اور ختم ماہ پر حساب کردیا اور کمی بیشی کرکے بے باق کردی  اور آئندہ کیلئے پھر نقد روپیہ دیدیا اور نیا معاہدہ بھاؤ کا کرلیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بازار کا بھاؤ کم ہوجاتا ہے مگر یہ مقرر شدہ نرخ بدلا نہیں جاتا اس کا اگلے مہینے میں لحاظ کرکے بھاؤ مقرر کرتے ہیں ،قصاب کو یہ نفع ہوتا ہے کہ اس روپیہ سے بکریاں خریدتا ہے اور گوشت بیچتا ہے اسکو کسی دوسرے شخص سے قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اب عرض یہ ہیکہ کیا یہ صورت جائز ہے؟

الجواب حامداومصلیا

صورتِ مسؤلہ میں اگر قصاب کو پیشگی پیسے دیتے وقت ہی خرید و فروخت کا معاملہ کر لیا جائے اور یہ رقم بطورِ ثمن کے دی جائے اور یہ طے ہوجائے کہ مہینہ میں جتنے گوشت کی ضرورت ہوگی وہ لے لیا جائیگا تو شرعاً یہ معاملہ درست نہیں اسلئے کہ خرید و فروخت کے معاملہ کے وقت مبیع یعنی خریدی ہوئی چیزکا موجود ہونا اور اس  کی مقدار کا متعین ہونا ضروری ہے جوکہ یہاں پر نہیں  ۔

البتہ اگر قصاب کو صرف پیشگی پیسہ دیدئیے اور خریداری وغیرہ کی کوئی بات نہیں کری اور پھر ضرورت کے بقدر پورے مہینہ گوشت لیتا رہااور مہینہ کے آخر میں بیع ِ تعاطی کے ذریعہ معاملہ کا حساب کرلیا تو یہ شرعاً درست ہے لیکن پیشگی رقم دیتے وقت ثمن کم طے کرنا اور سو روپے کلو والا گوشت پچانوے روپے میں خریدنا طے کرنا درست نہیں ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (4 / 516)

 قَالَ: فِي الْوَلْوَالِجيَّةِ: دَفَعَ دَرَاهِمَ إلَى خَبَّازٍ فَقَالَ: اشْتَرَيْتُ مِنْكَ مِائَةً مَنٍّ مِنْ خُبْزٍ، وَجَعَلَ يَأْخُذُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَةَ أُمَنَاءَ فَالْبَيْعُ فَاسِدٌ وَمَا أَكَلَ فَهُوَ مَكْرُوهٌ؛ لِأَنَّهُ اشْتَرَى خُبْزًا غَيْرَ مُشَارٍ إلَيْهِ، فَكَانَ الْمَبِيعُ مَجْهُولًا وَلَوْ أَعْطَاهُ الدَّرَاهِمَ، وَجَعَلَ يَأْخُذُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَةَ أَمْنَانٍ وَلَمْ يَقُلْ فِي الِابْتِدَاءِ اشْتَرَيْتُ مِنْكَ يَجُوزُ وَهَذَا حَلَالٌ وَإِنْ كَانَ نِيَّتُهُ وَقْتَ الدَّفْعِ الشِّرَاءَ؛ لِأَنَّهُ بِمُجَرَّدِ النِّيَّةِ لَا يَنْعَقِدُ الْبَيْعُ، وَإِنَّمَا يَنْعَقِدُ الْبَيْعُ الْآنَ بِالتَّعَاطِي وَالْآنَ الْمَبِيعُ مَعْلُومٌ فَيَنْعَقِدُ الْبَيْعُ صَحِيحًا.

الفتاوى البزازية – (4 / 26)

ولو دفع الدراهم إلى خباز وقال اشتريت مائة من الخبز وجعل يأخذ كل يوم خمسة من ففاسد وما أكل يكره ولو أعطاه دراهم وجعل يأخذ كل يوم قدراً من الخبز ولم يقل في الابتداء اشتريت كذا جاز وهو حلال وإن نوى وقت الدفع الشراء لأن بالنية لا ينعقد البيعه بل عند الأخذ وعنده المبيع والثمن كل معلوم ولا عبرة بالنية

اپنا تبصرہ بھیجیں