بیوی کو اس کی ماں سے ملنے سے روکنا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری ایک سہیلی کے میاں اسے اس کی والدہ سے نہیں ملنے دیتے۔ یہ ان سے فون پر بات کر لیتی ہے گھر نہیں جاتی حالا نکہ دونوں گھروں میں صرف ایک دیوار حائل ہے یا پھر کچھ کھانے پینے کی چیز کا تبادلہ کر لیا گھر کے پیچھے سے اب وہ کہتا ہے کہ مجھے پتہ ہے کہ تمھارا ان سے رابطہ ہے میں تم سے قرآن اٹھواوں گا کہ تمھارا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے ورنہ میں اپنے رابطے تم سے ختم کر لوں گا۔ ان لوگوں کا کوئی قصور بھی نہیں ہے بہت ہتھ چھوٹ اور گندی زبان بولتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اپنا گھر بچانے کے لیئے وہ جھوٹ بول دے اور جھوٹی قسم کھا لے ؟

والسلام

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

اسلام میں بیوی کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین سے بات چیت کرنے یا ملاقات سے منع کرے۔ شریعت نے چند حالات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے، جنگ میں ، دو لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں ، ظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے اور میاں بیوی میں پیار بڑھانے کے لیے۔ فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہيں:” اس پر اتفاق ہے كہ خاوند اور بيوى كے حق ميں جھوٹ سے مراد يہ ہے كہ اس ميں نہ تو حق ساقط ہوتا ہو اور نہ ہى كسى دوسرے كا حق غصب ہوتا ہو ” انتہى۔ مسئلہ ھذا میں شوہر ظلم کر رہا ہے اور قطع رحمی کا حکم دے رہا ہے تو اس صورت میں بیوی کے لیے اپنا گھر بچانے کے لیے جھوٹ بولنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاہم اس بات کی کوشش کی جائے کہ قرآن کی جھوٹی قسم نہ کھائے کوئی حیلہ کر لے اور اگر کوئی اس طرح کی جھوٹی قسم کھالے تو، اس طرح کی قسم پر کفارہ تو نہیں ہے، البتہ سچی توبہ واستغفار لازم ہے۔

“لو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (جامع الترمذي: 219/1)

يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب ، رواہ أحمد ،(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح,4860)

“عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس “۔ (صحيح البخاري، 8/ 137)

وَالْكَذِبُ حَرَامٌ إلَّا فِي الْحَرْبِ لِلْخُدْعَةِ وَفِي الصُّلْحِ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَفِي إرْضَاءِ الْأَهْلِ وَفِي دَفْعِ الظَّالِمِ عَنْ الظُّلْم۔(552/2، کتاب الکراھیة، ط: داراحیاء التراث العربی، بیروت)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 18 محرم 1442ھ

عیسوی تاریخ: 6 ستمبر 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں