بیوی کا مرحوم شوہر کو ایصال ثواب کرنا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ باجی مجھے پوچھنا تھا کہ شوہر کے فوت ہونے کے بعدعورت کا اس کو ایصال ثواب کرنا اور اس کو میرا شوہر کہنا جائز ہے کہ اب وہ نامحرم ہو گیا۔
الجواب باسم ملہم الصواب
واضح رہے کہ شریعت میں ایصال ثواب مخصوص افراد کے لیے خاص نہیں،بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔لہذا عورت اپنے مرحوم شوہر کےلیے ایصال ثواب کر سکتی ہے۔نیز چونکہ شوہر کی وفات تک عورت مرحوم کے نکاح میں تھیں، لہذا عورت کا مرحوم کو اپنا شوہر کہہ کر ذکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :

1۔عن أبي موسى، رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس .. قال: يا ابن أخي أقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام و قل له: استغفر لي واستخلفني أبو عامر على الناس فمكث يسيراً، ثم مات فرجعت فدخلت على النبي صلىے الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل، وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال: قل له: استغفر لي، فدعا بماء فتوضأ ثم رفع يديه، فقال: اللهم اغفر لعبيد أبي عامر، ورأيت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس”.
 (صحيح البخاري: 4323)
ترجمہ: حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو عامر ؓ کو سپہ سالار بنا کر ایک لشکر کے ہمراہ اوطاس کی طرف روانہ کیا۔میں واپس آ کر نبی ﷺ کی خدمت میں آپ کے گھر حاضر ہوا۔ اس وقت آپ بان سے بنی ہوئی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے جس پر ہلکا سا بستر تھا۔ چار پائی کی رسیوں کے نشانات آپ کے پہلو اور پشت پر پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ سے تمام حالات بیان کیے اور حضرت ابو عامر ؓ کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا اوران کی دعائے مغفرت کی درخواست بھی پیش کی۔ آپ نے پانی منگوایا، وضو کرنے کے بعد ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! عبید، یعنی ابو عامر ؓ کو بخش دے۔‘‘ اس وقت میں آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ نے پھر فرمایا:’’اے اللہ! اسے قیامت کے دن انسانوں میں سے اکثر پر برتری عطا فرما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔”والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة“۔
( البحرالرائق: ج 3، ص 59)

2.”الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة.
(قوله بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام -۔۔۔۔الخ
(قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع. قلت: وشمل إطلاق الغير النبي – صلى الله عليه وسلم – ولم أر من صرح بذلك من أئمتنا، وفيه نزاع طويل لغيرهم”.
(فتاوی شامیہ: ج 2،ص 595)

3.صرح علماؤنا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان أن یجعل فی ثواب عملہ لغیرہ صلوة أو صوما أو صدقة او غیرھا۔۔۔۔ألأفضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنھا تصل الیھم ولا ینقص من أجرہ شیئ”۔
(فتاوی شامیہ: ج 2،ص 243)
—————————————–
1.سلف صالحین کے مطابق ایصال ثواب کریں۔ وہ اس طرح کے کہ کسی رسم کی قید اور کسی دن کی تخصیص نہ کریں۔ اپنی ہمت کے مطابق حلال مال سے مساکین کی خفیہ مدد کریں۔جس قدر توفیق ہو خود قرآن شریف وغیرہ پڑھ کر اس کا ثواب پہنچا دیں۔
(تسہیل بھشتی زیور: ج 1، ص 374)

2.سوال : سنی بیوی کو شیعہ خاوند کے لیے دعائے مغفرت یا ایصال ثواب کرنا کیسا ہے؟اور سنی کو شیعہ کے لیے عام طور سے ایصال ثواب کا کیا حکم ہے؟
جواب : اگر اس کے عقائد کفریہ نہیں ہیں جیسا کہ بعض فرقوں کے ہوتے ہیں تا دعائے مغفرت درست ہے ، اس میں شوہر اور غیر سب برابر ہیں۔
(فتاوی محمودیہ: ج 9 ، ص 252)
———————————————-
واللہ اعلم بالصواب
13فروری 2023
22رجب 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں