بیوی کو مخاطب کیے بغیر تین بار طلاق دینے کا حکم

سوال: دوخاندانوں میں وٹہ سٹہ کارشتہ تھاایک عورت کےساتھ گھرمیں زیادتی ہوئی تودوسری عورت کےشوہر نےاپنی بیوی کانام لیےبغير طلاق طلاق طلاق كہا اوریہ الفاظ كہنےکےبعد بیوی کومیکےبھیج دیا اس صورت میں طلاق ہوئی یانہیں،قریبی دارالافتاء كےمفتیان کااختلاف ہوگیا ہے زیادہ ترکےنزدیک وقوع طلاق ہے اورکچھ کہتےہیں کہ اضافت الی المراۃ کے  نہ ہونےکی وجہ سےطلاق واقع نہیں ہوئی حالانکہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب لڑکےکوباپ نےکہاکہ تم اپنی بیوی کوکچھ نہیں کہتےجبکہ تمہاری بہن کوسسرال والےبہت تنگ کرتےہیں  اس پراس لڑکےنےکہا طلاق طلاق طلاق؟

شوہر کا بیان یہ ہے کہ میری طلاق کی نیت تھی اسی وجہ سے میں نے طلاق کے بعد بیوی کو میکے بھیج دیا۔

الجواب حامدا ومصلیا

واضح رہے کہ طلاق کے وقوع کے لیے   بیوی کی طرف صراحۃ  نسبت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دلالۃ نسبت  ہونے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ، لہذامذکورہ صورت میں  جب لڑکے کو باپ نے کہا کہ ( تم اپنی بیوی کوکچھ نہیں کہتےجبکہ تمہاری بہن کوسسرال والےبہت تنگ کرتےہیں  ) اور اس کے جواب میں  لڑکے نے کہا(طلاق طلاق طلاق) تو  دلالۃ    بیوی کی طرف نسبت پائی گئی  اور شوہر کی طلاق کی نیت بھی تھی جیسا کہ سوال میں واضح ہے  جس سے صراحۃ بھی نسبت پائی گئی،لہذا   مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو گئیں ،اب بغیر حلالہ شرعیہ  کے دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 248)

“لا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته… ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 294)

“وفي الخانية: قالت له طلقني ثلاثا فقال فعلت، أو قال طلقت وقعن…أن طلقني أمر بالتطليق، وقوله طلقت تطليق فصح جوابا والجواب يتضمن إعادة ما في السؤال”

البقرۃ آیۃ۲۲۹/۲۳۰

“الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ(الی قوله) فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ”

امداد الفتاوی۲/۴۴۸

“از قواعد وجزئیات چناں می نماید کہ شرط و قوع طلاق مطلق اضافت ست نہ کہ اضافت صریحہ آرے تحقق مطلق اضافت محتاج ست بقرائن قویہ و قرائن ضعیفہ محتملہ در آں کافی نیست …و آں قرینہ بہ تتبع چند قسم ست،اول صراحۃ اضافت، دوم نیت، سوم اضافۃ در کلام سائل،چہارم عرف”

“ترجمہ: قواعد و جزئیات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کی شرط مطلق اضافت ہے نہ کہ اضافت صریحہ ہاں البتہ مطلق اضافت کے تحقق کے لئے قرائن قویہ کی ضرورت ہوتی ہے، قرائن ضعیفہ کافی نہیں ہوتے ہیں…اور یہ قرینہ تلاش کے بعد چند قسم پر ہے اول:اضافت کی صراحت،دوم:  نیت،سوم: سائل کے کلام میں اضافت ،چہارم:عرف”

واللہ اعلم بالصواب

حررہ العبد حنظلہ عمیر غفر لہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۴/۶/۱۴۴۱ھ

ء2020/2/9

اپنا تبصرہ بھیجیں