بخار اور تیمم

السلام علیکم: اگر سخت ٹائفائیڈ ہے اور ڈاکٹر نے نہانے سے منع کیا ہے اور پاک ہوکے نہانا بھی ضروری ہے تو کیا کریں ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام

مذکورہ صورت میں اگر ماہر مسلمان طبیب کی رائے کے مطابق، پانی کے استعمال سے مریض کی جان یا عضو کے جانے کا اندیشہ ہو یا بیماری بڑھ جانے کا خوف ہو تو ایسے مریض کو غسل اور وضو کی حاجت کے وقت شریعت مطہرہ نے تیمم کی اجازت دی ہے۔تیمم کا طریقہ یہ ہے :پہلی بار دو نوں ہاتھ زمین پر مارنے کے بعد جھاڑ کر پورے چہرے پر اس طرح پھیر دے کہ کوئی جگہ نہ بچے۔دوسری بار دونوں ہاتھوں کو زمین پر مار نے کے بعد دونوں ہاتھوں پر کہنیوں سمیت اس طرح پھیرے کہ کوئی حصہ نہ بچے۔واضح رہے کہ تیمم کرنے کی اجازت صرف بیماری کی حد تک ہے، جیسے ہی مریض کی طبیعت بحال ہو ہو جائے اور پانی کے استعمال پر قادر ہو جائے تو غسل کر لے۔

“وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ.”

“اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔”

{الْمَآئِدَة، 5: 6}

“أَصَابَ رَجُلاً جُرْحٌ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ احْتَلَمَ فَأُمِرَ بِالاِغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَلَمْ يَكُنْ شِفَاءُ الْعِىِّ السُّؤَالَ.”

“رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک آدمی کو زخم پہنچا پھر اُسے احتلام ہو گیا تو اُسے غسل کرنے کا حکم دیاگیا۔ اُس نے غسل کیا تو فوت ہو گیا۔ جب یہ بات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُسے قتل کر دیا گیا، اﷲ اُنہیں مارے، کیا معلوم کر لینا بے خبری کا علاج نہیں ہے؟”

{مسند احمد 1: 130}

واللہ اعلم

(والمحصور فاقد) الماء والتراب (الطهورين) بأن حبس في مكان نجس ولا يمكنه إخراج تراب مطهر، وكذا العاجز عنهما لمرض (يؤخرها عنده: وقالا: يتشبه) بالمصلين وجوبا، فيركع ويسجد إن وجد مكانا يابسا وإلا يومئ قائما ثم يعيد كالصوم (به يفتى وإليه صح رجوعه) أي الإمام كما في الفيض، وفيه أيضا

(11) الفتاوى الهندية – (1 / 343)

واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں