بیٹے کے لئے وصیت

سوال: میری بہن اور بہنوئی کا انتقال ہوگیا ہے۔ دو بیٹے اور 5 جائیدادیں تھیں۔ پانچ سال سے تقسیم نہیں ہوئی۔ بڑا بھانجا کہتا ہے کہ ماں نے اسے دو جائیدادیں وصیت میں دیں ہیں اور باقی تین تقسیم ہوں گی۔ چھوٹا بھائی اس بات پر راضی نہیں۔ شرعاً میراث کیسے تقسیم ہوگی۔

الجواب باسم ملھم الصواب:۔
واضح رہے کہ شرعاً ورثاء کے حق میں وصیت اس وقت نافذ ہوتی ہے جب کہ دیگر ورثاء بالغ ہوں اور اپنی رضامندی سے اس کی اجازت دے دیں۔جب کہ صورتِ مسئولہ میں چونکہ دوسرا بھائی اس وصیت پر راضی نہیں، لہذا اس مال کے دو حصے کیے جائیں گے ایک حصے ایک بھائی کا اور دوسرا دوسرے بھائی کا بشرطیکہ کوئی اور وارث مثلا مرحوم والدین کے والدین، دادا،دادی، اور نانی ان کے انتقال کے وقت ژندہ نہ ہوں۔ اور صرف یہی دو اولاد ان کی موت کے وقت ژندہ ہوں۔

اگر کوئی اور وارث ہے تو ان کی تفصیل بھیج کر دوبارہ مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔

************
حوالہ جات :
1؛ الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین:
”(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته۔“
(الدر المختار، کتاب الوصایا، 10/341، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

2: مجمع الانهر:
وإن أجاز البعض دون البعض یجوز علی المجیز بقدر حصتہ دون غیرہ لولایتہ علی نفسہ فقط
(مجمع الأنھر، کتاب الوصایا، 4/419، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

3:الفتاوى الهندية:
”ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ۔۔۔ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔“
(الفتاوی الھندیہ 90/6 ط: مکتبۃ الامیریہ)

والله خير الوارثين

29 جمادی الثانیۃ 1445ھ
11 جنوری 2024

اپنا تبصرہ بھیجیں