بیٹے کا گھر خرید کر باپ کے نام کروانا

سوال: میرا نام محمد ذاکر ہے،30،35سال تقریباً امریکہ رہا،وہاں سے اپنے گھر والوں کو پیسہ بھیجتا رہا،میں نے اس دوران پاکستان میں گھر خریدا،اس کے لیے اپنے چچا کو پیسے بھیجے ، اور ان سے یہ بھی کہا کہ یہ گھر میرے والد کے نام پر لیں؛کیونکہ میں اس وقت امریکہ تھا اور باپ پاکستان ۔خریدنے کے بعد میں نے اس گھر میں چچا ،چچا کے بیٹےاور چھوٹے بھائی کو شہر میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے عارضی طور پر رہنے کی اجازت دی ۔کچھ عرصے کے بعد چچا نے اپنا الگ گھر خرید لیا اب اس میں صرف بھائی کی فیملی رہنے لگی،گھر ڈبل اسٹوری تھا،اوپر کی منزل میں وہ خود رہتے تھے اور نیچے والا کرایے پر دے دیا ،جس کا کرایہ تقریباً 45٫000 تھا،جو بھائی وصول کرتے تھے ،اس طرح 9،10سال گزر گئے، اس دوران میرے والدین میرے پاس امریکہ میں تھے،والد صاحب کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیا ؛ لہذاانھوں نے امریکی کونسلیٹ جا کر گھر میرے نام کروا دیا،اس کے بعدمیں کرونا کی وجہ سے پاکستان نہیں آسکا ،تو جب ہم پاکستان آئے تو یہاں سی ڈی اے دفتر والوں نے کہا کہ ان پیپرز کی تاریخ ایکسپائر ہوگئی تو دوبارہ گھر باپ کے نام چلا گیا،والد کے بعد میرے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اس گھر میں تین سال رہیں،ہم بھی ان کی مدد کرتے رہے اور وہ کرایہ بھی اسی طرح وصول کرتی رہیں، ان کے دو چھوٹے بیٹے ہیں ،اب ان کو پتا چلا کہ یہ گھر وراثت میں چلا گیا تو وہ 20٪شیئر مانگتی ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں یہ گھر خالی نہیں کروں گی اور آپ لوگوں پر کیس بھی کروں گی جبکہ اس گھر میں خرچ صرف اور صرف میرا اپنا ذاتی ہوا تھا ،نیز میرے والد نے بول کر وصیت بھی کی تھی کہ یہ گھر ذاکر کا ہے اور والدہ نے بھی وفات سے پہلے بہنوں سے کہا کہ یہ گھر ذاکر کا ہے ،بیوہ بھابھی اگر کچھ لے تو اس کو باقی جائیداد میں سے دے دینا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ اس گھر کا مالک کون ہے،کیا باقی ورثاء کا اس میں حق ہے؟
تنقیح: کیا باپ کے نام خریدنے کے بعد باپ کوقبضہ بھی دیا گیا؟
جواب تنقیح: نہیں!
الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے محض گھر یا زمین کسی کے نام کروانے سے اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی جب تک قبضہ نہ دیا جائے۔ صورتِ مسئولہ میں بیٹے نے خرید کر صرف باپ کے نام کروایا ،مالکانہ اختیارات نہیں دیے ؛لہذا گھر بیٹے ہی کی ملکیت ہوگا،والد کے انتقال کے بعد والد کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا؛ لہٰذا یہ گھر مرحوم کے بیٹے کا ہی ہے،اس کی بھابھی کا زبردستی قبضہ کرنا جائز نہیں،بلکہ اسے واپس کرنا ضروری ہے،البتہ اگر بیوہ حاجت مند ہو تو دیور ان کا خیال کرتے ہوئے عارضی طور پر جب تک ان کو کوئی دوسرا گھر نہیں ملتا، رہائش کی جگہ دے دے تو انھیں شرعاً ان شاءاللہ اس کا ثواب ملے گا،تاہم بیوہ کا زبردستی قابض بن کر رہنا جائز نہیں،اس سے وہ گناہگار ہوں گی۔
حوالہ جات
1۔”بخلاف جعلته بإسمك فإنه ليس بهبة“۔
(الدرالمختار: 689/5)
2۔لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا فى الفصول العمادية.
(الفتاوى الهندية:378/4)
3۔والأصل أن من بنى فى دار غيره بناء وأنفق فى ذالك بأمر صاحبه كان البناء كصاحب الدار وللبانى أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق۔
(تنقيح الفتاوى الحامدية:155/2)
4۔فالّذى يظهر أنه لا ينبغي أن يعتبر التسجيل قبضاً ناقلاً للضمان فى الفقه الإسلامي، إلا إذا صاحبته التخلية بالمعنى الذي ذكرناه فيما سبق۔
(فقه البيوع:406/1)
واللّٰہ سبحانہ وتعالی أعلم
22 محرم 1444ھ
21اگست2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں