بے وضو شخص کا اذان کہنا

سوال : بے وضو شخص کا اذان کہنا کیسا ہے؟

جواب : باوضو اذان دینا مستحب ہے، لیکن اگر کسی شخص نے کبھی کسی وقت بلا وضو اذان دے دی تو بھی اذان ہوجائے گی،دہرانے کی ضروری نہیں۔تاہم ہمیشہ بے وضو ہی اذان دینے کی عادت بنالینا کراہت سے خالی نہیں ہوگا۔

حوالہ جات :

1 : ( ویکرہ أذان جنب واقامۃ محدث لا أذانہ ) وعلی المذھب راجح لقولہ ” واقامۃ محدث لا أذانہ واما الجنب فیکرھان منہ روایۃ واحدۃ کما فی البحر ۰

( تنویرالابصار مع الدر المختار : 2/60 )

2 : ( وقولہ وکرہ اذان الجنب واقامتہ واقامۃ المحدث واٰذان المرأۃ والفاسق والقاعد والسکران ) اما اذان الجنب فمکروہ روایۃ واحدۃ لانہ یصیر داعیا الی ما لا یجیب الیہ، واقامتہ اولی بالکراھۃ قید بالجنب لان اذان المحدث لا یکرہ فی الظاھر الروایۃ وھو الصحیح لان للأذان شبھا بالصلوۃ حتی یشترط لہ دخول الوقت وترتیب کلماتہ کما ترتیب ارکان الصلوۃ ولیس ھو بصلاۃ حقیقۃ فاشترط لہ الطھارۃ عن اغلظ الحدثین دون اخفھما عملا بالشبھین ۰وقیل یکرہ لحدیث الترمذی عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ “لا یؤذن الا متوضی” واما اقامۃ المحدث فلانھا لم تشرع الا متصلۃ بصلاۃ من یقیم، ویروی عدم کراھتھا کالاذان ۰

( البحر الرائق : 1/458 )

3 : باوضو اذان دینا مستحب ہے  اس لیے بغیر عذر کے وضو کے بغیر اذان نہیں دینی چاہیے، لیکن اگر کبھی کسی وقت بلا وضو بھی اذان دے دی گئی تو ظاہری روایت کے مطابق مکروہ نہیں ہوگی، اس لیے بلا وضو کے دی گئی اذان کا دہرانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص عادت ہی بنالے کہ ہمیشہ بے وضو اذان دیتا ہی رہے تو یہ کراہت سے خالی نہیں ہوگا –

فقط واللہ اعلم بالصواب

فتویٰ نمبر : 144001200529

دار الافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

16دسمبر2021

10جمادی الاولی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں