چاند ديكهنے سے متعلق مسائل

چاند ديكهنے سے متعلق مسائل

چا ند دیکھنے کی دعا :عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَى الْهِلالَ، قَالَ: ” اللهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلامَةِ وَالْإِسْلامِ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ ” (رواه الترمذى)

ترجمہ : حضرت طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ جب کسی مہینہ کا چاند دیکھتے تو اس طرح دعا کرتے : (اے اللہ یہ چاند ہمارے لئے امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کا چاند ہو ۔ اے چاند تیرا رب اور میرا رب اللہ ہے) ۔

آپ نے مختلف موقعوں پر رؤیت ہلال کے متعلق ضروری ہدایات دی ہیں ۔مثلا حدیث میں ہے!

عَنِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ ذَكَرَ رَمَضَانَ فَقَالَ : « لاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ ، وَلاَ تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ »( رواه البخارى والمسلم )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے ایک موقع پر رمضان کا ذکر فرمایا ، اس سلسلہ میں آپنے ارشاد فرمایا کہ : رمضان کا روزہ اس وقت تک مت رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور روزوں کا سلسلہ ختم نہ کرو جب تک شوال کا چاند نہ دیکھو لو ، اور اگر ۲۹ کو چاند دکھائی نہ دے تو اس کا حساب پورا کرو ( یعنی مہینے کو ۳۰ دن کا سمجھو )۔

ایک اور حدیث میں ہے!

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَحْصُوا هِلاَلَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ.( رواه الترمذى )

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : رمضان کے لیے شعبان کے چاند کو خوب اچھی طرح گنو۔

ایک اور حدیث میں ہے!

إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَازَ شَهَادَةَ وَاحِدٍ عَلَى رُؤْيَةِ هِلَالِ رَمَضَانَ ، وَكَانَ لَا يُجِيزُ شَهَادَةً فِي الْإِفْطَارِ إِلَّا بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ

( رسول اللہ نےرمضان کے لیے ایک آدمی کی گواہی کو بھی کافی مانا ہے ، اور عید کے چاند کی گواہی دو آدمیوں سے کم کافی نہیں قرار دیتے تھے ) ۔

مذکورہ بالا احادیث سے اندازا ہوتا ہے کہ خصوصا رمضان کا چاند دیکھنے کی کس قدر خاص تاکید کی گئی ہے،اور اس مقصد سے شعبان کا چاند دیکھنے کا بھی خصوصی اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے، تا کہ کسی دھوکہ یا غفلت سے رمضان کا روزہ چھوٹ نہ جائے ۔ لیکن حدود و شریعت کی حفاظت کے لیے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ رمضان کے ایک دو دن پہلے سے روزے نہ رکھے جائیں۔چنانچہ حدیث میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: « لاَ يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ ، فَلْيَصُمْ ذَلِكَ اليَوْمَ »( رواه البخارى ومسلم )

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ : تم میں سے کوئی رمضان کے ایک دن پہلے سے روزے نہ رکھے الا یہ کہ اتفاق سے وہ دن پڑ جائے جس میں روزہ رکھنے کا کسی آدمی کا معمول ہو تو وہ شخص اپنے معمول کے مطابق اس دن بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔ ( مثلاً ایک آدمی کا معمول ہے کہ وہ ہر جمعرات یا پیر کو روزہ رکھتا ہے تو اگر ۲۹ ، ۳۰ شعبان کو جمعرات یا پیر پڑ جائے تو اس آدمی کو اس دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ) ۔

ذیل میں چاند دیکھنے سے متعلق چند اہم ترین مسائل ذکر کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں !

1- شعبان كی انتیسویں تاریخ کوبادل کی وجہ سے رمضان شریف کا چاندنظر نہ آئے تو اگلے دن نفلی روزہ نہیں رکھنا چاہیے،البتہ اگر کسی کی عادت ہو کہ ہر پیر اور جمعرات یا کسی اورمتعین دن کا روزہ رکھا کرتا تھا ،اور شعبان کی تیس تاریخ کو وہی دن ہوتو نفل کی نیت سے روزہ رکھ لینا بہتر ہے، پھر اگر چاند کی خبر آگئی تو اسی نفل روزے سے رمضان کا فرض ادا ہوجائے گا، قضا رکھنے کی ضرورت نہیں۔

2- شعبان کی انتیسویں تاریخ کو چاند نظرنہ آئے تب بھی اگلے دن قضا کا روزہ، کفارہ کا روزہ اور نذر کا روزہ رکھنا مکروہ ہے، اگر قضا یا نذر کا روزہ رکھ لیا پھر کہیں سے چاند کی خبر آگئی تو بھی رمضان ہی کا روزہ ادا ہوگا، قضا اور نذر کا روزہ دوبارہ رکھنا ہوگا اور اگر خبر نہیں آئی تو جس روزہ کی نیت کی تھی وہی ادا ہوجائے گا۔

3- اگر آسمان پر بادل یا غبارکی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہیں آیا لیکن ایک دین دار، پرہیز گاراورسچے آدمی نے آکر گواہی دی کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے تو رمضان کے چاند کا ثبوت ہوگیا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہو۔

4- اگر بادل کی وجہ سے عید کا چاند دکھائی نہیں دیا تو ایک شخص کی گواہی کا اعتبار نہیں، چاہے جتنا بڑا معتبر آدمی ہو، بلکہ جب دو معتبر اور پرہیز گار مرد یا ایک دین دار مرد اور دو دین دار عورتیں چاند دیکھنے کی گواہی دیں تب چاند کا ثبوت ہوگا اور اگر چار عورتیں گواہی دیں تو بھی قبول نہیں۔

5- اگر آسمان صاف ہو تو دو چار آدمیوں کی گواہی دینے سے بھی چاند ثابت نہیں ہوگا، چاہے رمضان کا چاند ہویا عید کا، البتہ اگر اتنے زیادہ لوگ چاند دیکھنے کی شہادت دیں کہ اتنے لوگوں کا جھوٹا ہونا عادۃًکسی طرح ممکن نہیں، تب چاند ثابت ہوگا۔

6- جو آدمی دین کا پابند نہیں،گناہ کرتا رہتا ہے، مثلاً :نماز نہیں پڑھتا یا روزہ نہیں رکھتا یا جھوٹ بولتا ہے یا سرِ عام کوئی اورگناہ کرتا ہے، شریعت کی پابندی نہیں کرتا تو شریعت میں اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے، چاہے جتنی قسمیں کھاکر بیان دے بلکہ ایسے اگر دو تین آدمی ہوں توبھی ان کااعتبار نہیں۔

7-کسی نے رمضان شریف کا چاند اکیلے دیکھا، اس کے علاوہ شہر بھر میں کسی نے نہیں دیکھا، لیکن یہ احکامِ شرع کا پابند نہیں ہے تو اس کی گواہی سے دوسرے لوگ تو روزہ نہ رکھیں لیکن خود یہ روزہ رکھے اور اگر اس نے تیس روزے پورے کرلیے لیکن ابھی عید کا چاند نہیں دکھائی دیا تو اکتیسواں روزہ بھی رکھے اوردوسرے لوگوں کے ساتھ عید کرے۔

8- اگر کسی نے عید کا چاند اکیلے دیکھا، اس لیے اس کی گواہی کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا تو خود اس کے لیے بھی عید کرنا درست نہیں ، صبح کو روزہ رکھے اور اپنے چاند دیکھنے کا اعتبار نہ کرے۔

9- مشہور ہے کہ جس دن رجب کی چوتھی تاریخ ہو اس دن رمضان کی پہلی ہوتی ہے، شریعت میں اس کاکوئی اعتبار نہیں، اگر چاند نظر نہ آئے تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔

10- چاند دیکھ کر یہ کہنا کہ چاند بہت بڑا ہے، کل کا معلوم ہوتا ہے، بری بات ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ یہ قیامت کی علامات میں سے ہے، جب قیامت قریب ہوگی تو لوگ ایسا کہا کریں گے۔ خلاصہ یہ کہ چاند کے بڑے چھوٹے ہونے کاکوئی اعتبار نہیں۔

11- شہر بھر میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ کل چاندنظر آگیا تھا اور بہت سے لوگوں نے اسے دیکھا ہے لیکن تلاش کے باوجود کوئی ایسا آدمی نہیں ملا جس نے خود چاند دیکھا ہو تو ایسی خبر کا کوئی اعتبار نہیں۔

12- اگر دومعتبر آدمیوں کی شہادت سے چاندثابت ہوجائے اور اسی حساب سے لوگ روزہ رکھیں اور تیس روزے پورے ہوجانے کے بعد عیدالفطر کا چاندنظر نہ آئے، چاہے مطلع صاف ہو یا نہ ہو تو اکتیسویں دن افطار کرلیا جائے اور وہ دن شوال کی پہلی تاریخ سمجھی جائے.

اپنا تبصرہ بھیجیں