کورٹ کے نوٹس سے خلع واقع ہو گا یہ نہیں؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ!

ایک خاتون اپنے شوہر سے تنگ آگئی او ر اس نے کورٹ جا کر خلع کا کیس دائر کیا، شوہر کو کورٹ کی طرف سے اور خود بھی پیغام بھیجا کہ کورٹ آ کر معاملہ سلجھاؤ

وغیرہ،مگر اس کا شوہر کسی بھی سنوائی میں کورٹ نہ آیا،اور کچھ ماہ بعد کورٹ نے عورت کو خلع کی ڈگری دے دی۔

خلع لینے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا شوہر انکو خرچہ نہیں دیتا تھا شروع سے، اور خاتون خود گھروں میں کام کر کے اپنا بچوں کا اور گھر کا خرچہ چلاتی تھیں. بیماری میں بیوی کا علاج بھی نہیں کراتا تھا۔ سسرال والے الزامات لگاتے تھے، کہ یہ ہمارے بھائ(شوہر) کو زہر دے کے مار دے گی، اور یہ کہ گھر پر کوئی آتا جاتا ہے، تو شوہر بھی ان کی باتوں میں آ کر شک کرتا تھا۔ خلع سے پہلے جب خاتون ناراض ہو کر امی کے گھر گئیں تو نہ بیوی کو منانےآیا اور نہ ہی بیوی یا بچوں کا خرچہ بھجوایا( بچے خود ہی ماں کے پاس آگئے باپ کو چھوڑ کر)اور جو گھر بیوی نے خود بنایا تھا وہ شوہر نے بیچ دیا ہے۔

صرف بڑا بچہ باپ کے پاس ہے باقی تینوں ماں کے پاس ہیں، اور خرچہ اب بھی ماں کے کندھوں پر ہے۔

انھوں نے کورٹ کے کاغذات بھی ساتھ لگائے ہیں ۔برائے مہربانی یہ بتا دیں کے یہ طلاق درست ہے یا نہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صورت مسئولہ میں شوہر بیوی کے کوئی مالی حقوق ادا نہیں کر رہاتھا، مارکٹائی بھی کرتا رہا ہے انہی باتوں کو بنیاد بناکر اس نے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کر دیا اور کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے حاضری کا نوٹس دیا تھا لیکن ان کے شوہر حاضر نہیں ہوۓ لہذا کورٹ نے شوہر کو قسم سے منکر مانتے ہوئے خلع کی ڈگری جاری کردی ہے، کیونکہ فیصلے میں اسباب تنسیخ نکاح پاۓ جارہے ہیں اس لیے کورٹ نے خلع کے بجائے الفاظ استعمال کیے ہوں تب بھی اسے تنسیخ نکاح مان کر معتبرمانا جاۓ گا لہذا ان کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔اب مذکورہ خاتون اس کے نکاح سے نکل چکی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

كتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)

“اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال”.

(المبسوط للسرخسی:2/202،دار الکتب العلمیۃ)

قال شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالی:”(قال) (والخلع جائز عند السلطان وغیرہ)لأنہ عقد یعتمدالتراضی کسائر العقود،وھو بمنزلۃ الطلاق بعوض،وللزوج ولایۃ إیقاع الطلاق،ولھا ولایۃ التزام العوض،فلا معنی لاشتراط حضرۃ السلطان فی ھذا العقد”.

فقط

واللہ اعلم

25 جمادی الثانی 1442ھ

8 فروری 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں