کریکٹر

یہ ایک ایسی بیماری ہے  جو تقریباً ہماری قوم کے تمام 15 سے 25 یا 30 سال کی عمر کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات عمر کا دورانیہ 35 سے 40 ، 45 تک بهی چلا جاتا ہے ۔ چونکہ ہماری قوم کی اکثریت عاشق مزاج ہی ہوتی ہے  اس لئے بندہ چاہے  کسی شعبے کا ہو اپنے زمانے میں “رانجها جوگی” تو ضرور رہا ہوتا ہے  وہ یا لڑکی ہوتو  “ہیر جوگن” بن کے رہی  هوتی ہے ۔

ایک دن ایک دوست کے ساتھ سارا دن گزارا جو قریباً 22 سال کا ہے ۔ اور پورا دن فریش گزرا گپ شپ کهیل کود کمپیوٹر گیمز کے چیلینج اور سب سے بڑھ کر کهانا تک اکٹهے کهایا اور خوش رہے۔ عصر کے وقت اس کو گهر چهوڑ کر اپنے گهر اگیا. عشاء کے بعد اس کا فون آیا کہ کہاں ہو میں کہا گهر میں تو کہا بائیک لے کر آؤ میری طرف میں چلا گیا۔

موصوف نے کہا کہ کسی کریانہ شاپ پر بریک لگاؤ۔ میں وہاں رکا تو اس نے دکان سے 6 عدد گولڈلیف لئے دو “سٹنگ” کی بوتلیں لیں اور تین چار ببل گم اور لانگ ڈرائیو پر نکل گئے  ایک جگہ درختوں کے چهوٹے سے جهرمٹ کے پاس بریک لگا کر بیٹھ گئے بیٹهتے ہی  اس نے سیگریٹ سلگائی اور لیٹ کر آسمان پر تارے دیکهتے هوئے کش لگانے لگا اس دوران زندگی کے فلسفہ پر دو چار باتیں کی اس نے جو بالکل خلاف توقع تهی۔

کہنے لگا “زندگی بڑا امتحان ہے  یار  خوشیاں تلاش کرنی پڑتی ہیں یہاں اور غم خود ہی جهولی میں آگرتے ہیں” اور اس طرح کی ایموشنل باتیں کرنے لگا تو میں چونک گیا اور اسے بٹها کر پوچها کہ “بهائی خیر تو هے نا. . . ؟؟ ابهی تو اچها بهلا گهر چهوڑا تها تجهے تهوڑی دیر میں کیا کهالیا جو اتنا ایموشنل سین کرنے کے لئے لے آیا مجهے ساتھ..؟؟” اس نے ادهر ادهر کی باتیں کر کے ٹال دیا۔

پهر میں نے ٹاپک چینج کر کے باتوں باتوں میں اگلوایا کہ عصر سے اب تک گهر میں کیا کرتا رہا تو معلوم ہوا کہ جوان ایک ناول پڑھ رہا تها کچھ دنوں سے جو بہت رومینٹک لو سٹوری پر چل رہا تها وہ پڑھ کر ختم کیا آج اور مجهے بلا لیا۔ کهانا بهی نہیں کهایا اس نے میں نے ناول کی سٹوری سنی اس سے تو معلوم ہوا کہ سٹوری بہت کمال کی تهی لیکن بد قسمتی سے

“HAPPY ENDING”

نہیں ہو سکی اور پیار نہ مل سکاتب جا کر سمجھ آیا کہ وہ اس وقت سے “کیریکٹر” میں تها  تو پهر اس کا دماغ درست کیا کہ بهائی آنکھیں  کهول ناول ختم ہوگیا۔اب حقیقی دنیا میں واپس آجا لیکن صرف باتوں سے جب اس کی آنکھیں  نہ کھلیں  اور وہ کیریکٹر سے باہر نہ نکل سکا تو میں نے اپنا خاص کلیہ استعنال کیا۔ اس کو کہا گهٹنوں بل کهڑے ہو جاؤوہ ہوگیا  پهر اس سے کہا کہ اپنی آنکھیں  بند کرو  اس نے کر لیں پهر میں نے کہا اپنی دونوں بازو کهول لو اس نے کهول دئیے پهر میں نے کہا اب لمبی لمبی تین سانسیں لو اور آنکھیں  کسی قیمت پر نہیں  کهولنی.یہ خود کھلیں  گی اس نے لمبی لمبی تین سانسیں لیں میں نے کہا کہ منہ کو تهوڑا سا آسمان کی طرف اٹھاؤ  اس نے ایسا ہی  کیا پهر میں ایک کلاس کی چپیڑ اسے رکھ کے ماری  تو ایسے آنکھیں کھلیں  اس کی جیسے ابهی ابهی دنیا میں آیا ہو  کچھ دیر تک تو سکتے میں رہا بوکهلایا ہوا لیکن جب اسے سمجھ آئی کہ پیر صاحب نے علاج کر دیا ہے تو پهر ہم دونوں بہت زور زور سے ہنستے رہے کچھ دیراور خوشی خوشی “ہیپی اینڈنگ” کر کے گهر واپس ہوئے۔

اصل میں ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں جب ایسا کوئی ڈرامہ یا فلم دیکھیں یا ناول پڑهیں تو وہ اس میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ لڑکے خود کو اس سٹوری کا ہیرو بنا کر سٹوری میں شامل ہو  جاتے ہیں اور لڑکیا ں ہیروئن کے کیریکٹر میں حلول کر جاتی ہیں۔اور سٹوری خود پر چلارہی ہوتی ہیں۔اب جب سٹوری ختم ہوتی ہے تو ان نوجوانوں کو جو اس سٹوری کا حصہ بنا کر اسے پڑھ یا دیکھ رہے تهے سمجھ نہیں آتی کہ اب وہ خود پر طاری ہونے والے کیریکٹر کا کیا کریں۔ اس لئے چند دن تک وہ اس سٹوری کے کیریکٹر میں ہی رہتے ہیں پهر آہستہ آہستہ نارمل ہوجاتے ہیں کچھ دنوں میں  یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اکثریت ناکام عاشقوں کی ہے  یہاں سب کی زندگی کا کوئی نہ کوئی فلاپ سین ہو چکا ہوتا ہے۔.

“HAPPY ENDING”

سے کیریکٹر تهوڑا کنٹرول میں رہتا ہے ینگسٹرز کا. لیکن اگر اینڈنگ ہیپی نہ هو تو لڑکوں کے کے سیگریٹ آور لڑکیوں آنسو چند دن تو دبا کے چلتے رہتے ہیں اور کیریکٹر سے حقیقی دنیا میں آنے تک کچھ دن لگ جاتے ہیں  لیکن اگر ڈاکٹر میرے جیسا ہو تو یقین کریں علاج جلدی اور پائے دار ہوسکتا ہے  یا تو خود کو حقیقت میں لانا سیکھ لیں یا کیریکٹر میں آتے ہی میرے جیسا کوئی حکیم تلاش کریں۔

.

.

.

اساں ترقی سواہ کرنی اے سالی ادہی قوم تے کیریکٹر وچ رہندی اے ……تے باقی مائیاں بابے تے بچے. مائیاں بابے کیریکٹر چوں باہر نکل رئے هوندے نے تے بچے داخل ہو رئے ہونے نے. 

میں شاید واحد پاکستانی آں جدا عشق اونوں ہر ویلے دستیاب ہوندا اے…. اور وی دن وچ 2 ، 3 واری. . . . . 

اپنا تبصرہ بھیجیں