سائبرمیڈیا پر رد الحاد کے اصول

الحمدللہ وکفی، وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، امابعد!

ادْعُ إِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ(النحل:۱۲۵)

ترجمہ:

اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ (1) دانائی سے(2)اور اچھی نصیحت سے(3)اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو،بےشک تمہارا رب اس کو خوب جاننے والا ہے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوااور وہ راہ پانے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔ 

اس آیت کی روشنی میں ہم سائبر میڈیا پردعوت وتبلیغ ، نہی عن المنکر اور رد الحاد کے یہ اصول اخذ کرسکتے ہیں:

(1) فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر جذبۂ ایمانی سے سرسار کچھ سادہ لوح مسلم اپنی کم علمی کے باوجود ملحدوں سے بحث مباحثہ میں لگے رہتے ہیں۔ ٹھوس دینی و دنیاوی علم کے بغیر اس بحث مباحثے کے نتیجے میں کسی ملحد کو تو ایمان والا بنتے نہیں دیکھا البتہ بعض ایمان والوں کے ایمان کے لالے پڑتے دیکھا ہے۔اس لیے رد الحاد کی محنت کرنے والوں کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ان کے پاس بھرپور علمی رسوخ ہو۔فیس بک پر مختلف فورم چلانے والے ملحد پیشہ ور اور مکمل تربیت یافتہ ہیں جو وجود باری تعالیٰ‘ پیغمبراسلام ﷺ ‘ قرآن اور احادیث کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور بڑی آسانی سے نا پختہ اذہان و ایمان کے حامل کم علم والے سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتے ہیں۔

سادہ لوح عوام اس آسمانی ہدایت کو سامنے رکھا کریں:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا

(النساء:آیت 140)

اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وه اس کے علاوه اور باتیں نہ کرنے لگیں، (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے واﻻ ہے۔‘‘

(2) مسلکی حدبندیوں سے بالاتر ہوکر محنت کی جائے!وہ اہل علم جو مسلکی اور فرقہ وارانہ حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر اس میدان میں سر گرم عمل ہیں ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں ۔اس حکمت کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ زیادہ جڑیں گے۔ہرمسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کے پاس آئیں گےاس طرح کام کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتاچلاجائے گا۔اس سلسلے میں تبلیغی جماعت اورتحفظ ختم نبوت کا منہج قابل تقلید ہے۔ 

(3) دعوت دین میں قوت اس ایمان کے بقدر پیدا ہوگی جو آپ کے اندر ہے اگر آپ کا اپنا ایمان مستحکم نہیں ہے تو آپ کی دعوت بھی اس درجے قوی نہ ہوگی۔اس لیے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ دل میں ایمانی قوت کا ہونا بے حدضروری ہے۔متبع سنت مرشد سے اصلاحی تعلق اور مشاورت اس خوبی کو پیدا کرنے میں معاون ہوگی۔

(4) ہمارے لب ولہجے میں نفرت اور تحقیر کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وہ دعوت نہیں بلکہ مجادلہ بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہدایت کا عام ہونا ممکن نہیں رہتا۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’علم میں جدال اور جھگڑا نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سُنّت کا علم ہو گیا وہ حفاظت سُنّت کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے، پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کر لے۔ (اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک :1/15)

علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“قرآن کریم نے حکمت و موعظت کو تو عطف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لیے الگ جملہ جادلہم باللتی ہی احسن اختیار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں، بلکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنے کانام ہے۔”

(5) دعوت دین کے کئی ذرائع ہوسکتے ہیں لیکن طریقہ کار وہی ہونا چاہیےجو قرآن کریم نے بیان کیاہے۔ سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائز ہ لے کر اس کے مناسب مرکزی خیال سوچ لیاجائے پھر اس میں خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبے کے ساتھ ایسے شوابد اور دلائل سامنے لائے جائیں اور ترغیب وترہیب کی ایسی باتیں شامل کی جائیں جن سے مخاطب مطمئن ہو سکے ۔ طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھاجائے کہ مخاطب کو یقین ہو جائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔

سائبرمیڈیا پر رد الحاد کے اصول” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں