دف والے میوزک کا حکم

فتویٰ نمبر:4093

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

کیادف کی آوازوالامیوزک جائزہے؟

والسلام

الجواب حامداو مصليا

واضح رہے کہ شرعاً جس قسم کا دف بجانے کی گنجائش ہے اسکی تعریف یہ ہے: 

“دف ایک طرف سے بند ہوتا ہے جس کو بجایا جاتا ہے، اور دوسری طرف سے کھلا ہوتا ہے اور اس میں گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو”۔ (ماخذہٗ التبویب ٤٩/١٨٨٣)

لہذا جس دف کی بناوٹ مذکورہ تعریف کے مطابق درست ہو تو جن مواقع پر شریعت نے دف بجانے کی اجازت دی ہے ان میں درج ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔

1) دف بلکل سادہ ہو اس میں کسی قسم کا ساز یعنی گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو۔

2)  اس کو کسی خاص گانے وغیرہ کے طرز پر نہ بجایا جائے جس سے کیف و مستی پیدا ہو۔

3)  دف بجانے والی یا گیت گانے والی چھوٹی بچیاں ہوں اور وہ پیشہ ورانہ طور پر گانا گانے والی نہ ہوں

4) گیت کا مضمون غیر شرعی نہ ہوں (ماخذہٗ التبویب بتصرف: ١٨٨٣/٤٩)

5) تھوڑی دیر تک بجایا جائے۔ (امدادالفتاوی جلد ٢ صفحہ ٣٠٧)

ایسا دف اعلانِ نکاح ، ولیمہ ، عید اور دیگر شرعی خوشی کے مواقع پر بجایا جائے تو مذکورہ بالا حدود وقیود کے ساتھ گنجائش ہے:

حضرت امام عظم مفتی محمد شفیع صاحب اپنی کتاب ” اسلام اورموسیقی” میں تحریر فرماتے ہیں:

نبیﷺ نے تمام معازف و مزامیر (باجے، تاشے) کو حرام قرار دیا ہے، اس کے علاوہ ان آلاتِ لہو و لعب اور اس غناء کو حرام قرار دیا ہے جو ذکراللہ اور فکرِ آخرت سے غفلت پیدا کریں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان اشیاء کی حرمت کا سبب یہ ہیکہ یہ فضول اور لغو چیزیں ہیں اور نہ صرف یہ کہ آدمی کو خدا کی یاد اور فکرِ آخرت سے غافل کرتی ہیں بلکہ اس درجہ تک لے جاتی ہیں کہ اسے اپنی دنیاوی ضرورتوں کا بھی ہوش نہیں رہتا جیسا کہ ان میں مبتلاء لوگوں کی حالت سے ظاہر ہے۔

البتہ غنا و ملاہی کی ان صورتوں کو حلال کیا ہے جن میں کوئی فائدہ اور منفعت پیش نظر ہیں۔ جیسے: نکاح کے وقت اعلان کے لیے،عیدین میں اظہار خوشی کے لیے

دورانِ سفر اور مشقتوں کا احساس کم کرنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جواز کی روایات سے صرف مذکورہ بالا صورتوں ہی کا جواز معلوم ہوتا ہے ان کے علاوہ ہر صورت حرمت کی روایات کے تحت آتی ہیں۔ (اسلام اور موسیقی۔ مؤلفہ مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صفحہ نمبر: ٢٣٥۔٢٣٦)

▪قال في الشامي: لا بأس بالدف في العرس لیشتہر وفي السراجیة: ہذا إذا لم یکن لہ جلاجل ولم یضرب علی ہیئة التطرب (شامي: ۹/۵۰۵)

البتہ موجودہ دور میں جو آلہ دف کے نام سے معروف ہے جس میں اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی پلیٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں جس سے ایک خاص قسم کے ساز کی آواز پیدا ہوتی ہے، یہ اگرچہ شکلاً دف میں داخل ہوجائیں، مگر چوں کہ ان میں گانا، باجا ساز وغیرہ پایا جاتا ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

▪إن اللہ بعثني رحمة وہُدیً للعالمین وأمرني أن أمحق المزامیر والکنارات․․․ الخ (مسند احمد/ ۲۲۲۱۸) یعنی: اللہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام ”مزامیر“ (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔

▪قال في البزازیة: استماع صوت الملاہي کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیہ الصلاة والسلام: ”استماع الملاہي معصیة والجلوس علیہا فسق والتلذذ بہا کفر“ أي بالنعمة (درمختار مع شامي: ۹/ ۵۰۴) والتفصیل في أحکام القرآن تحت قولہ تعالی: ومن الناس من یشتري لہو الحدیث الآیة۔

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ٢ رجب ١٤٤٠؁

عیسوی تاریخ: ٩ مارچ ٢٠١٩؁

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں