دارالحرب اور سودی معاملات

فتویٰ نمبر:626

کیا   فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام ذیل کے  مسئلے میں کہ

 ہمارے ملک میں ایک جماعت کے مفتی  صاحب نے فتویٰ دیاہے کہ دارالحرب  میں مسلمانوں کا کفار سے  سودی معاملات وعقود فاسد وغیری کرنا مباح اور جائز ہے ۔

اور دوسری جماعت کے مفتی صاحب فتویٰ  دیتے ہیں کہ دارالحرب  ہو  یا نہ ہو کفار سے  سودی معاملہ اورعقودفاسد وجائز نہیں بلکہ حرام ہیں اور  کہتے ہیں کہ جو لوگ  اس کی اباحت  اور جواز کا فتویٰ دیتے ہیں انہیں کسی  مذہبی  اداکارہ کا صدر بنانا  اور امیر بنانا جائز نہیں  بلکہ ان کے ایمان کا خطرہ ہے ۔دریافت طلب امر   یہ ہے کہ ان حضرات  کا اس طریقے  سے فتویٰ دینا کہاں  تک صحیح  ہے اورا ختلافی  مسائل میں اتنے تشدد کے ساتھ فتویٰ  دینا کہاں تک جائز ہے  اور مقلد ہوتے ہوئے امام محمد ؒ  اور امام صاحب ؒ  کےا وپر بد ظنی رکھنا کہاں تک جائز ہے  ؟بعض حضرات  فرماتے ہیں کہ “لاربی بین المسلم  والحربی  فی دارالحرب ” میں  ” لا ” کو لانہی  کے معنی میں لے کر امام صاحب  ؒ کے اوپر  غلطی کی نسبت کرتے ہیں ۔ وہ کہاں تک صحیح ہے ؟

الجواب باسمہ  تعالیٰ

 اس بحث سے قطع نظر کہ ملک برمادارالحرب ہے یا دارالامن آپ کے مطلوبہ  مسائل کے جوابات درج ذیل ہیں :

 1۔ دارالحرب  میں کافر حربی سے سود کے جائز نہ ہونے کے بارے میں  علماء کرام  کے درمیان اختلاف  ہے چنانچہ  جمہور فقہاء کرام یعنی  حضرت امام  شافعی ؒ اور حضرت امام مالک ؒ اور حضرت  امام  احمد  ؒ اور حنفیہ میں سے امام ابو یوسف ؒ  دارالحرب  میں کافر حربی سے  سود کو مطلقاً ناجائز کہتے ہیں ۔ ان کے  مستدلات  وہ قرآنی آیات ہیں جن میں اللہ  تعالیٰ  نے سود کو مطلقاً حرام قرار دیاہے ۔ النتہ حنفیہ میں سے  حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت ا مام  محمد ؒ دارالحرب  میں کافر  حربی سے سود کو ایک غین حدیث ” لا ربابین المسلم والحربی ” کو بنیاد بناکر  چند قیود  کے ساتھ جائز کہتے ہیں  وہ قیود  مندرجہ ذیل ہیں ۔

1۔ دارلحرب  ہو ۔

2۔ ربوا کا معاملہ کافر حربی  سے ہو۔

3۔معاملہ کرنے والا  وہ مسلمان  ہو جو دارالحرب  میں  ویزے  پررہائش پذیر ہیں یا وہ مسلمان  ہو جو  دارلحرب میں ہی اسلام لایا ہو ۔

4۔ دار الحرب  میں رہنے والا مسلمان  اصلی  یا ذمی  نہ ہو کما فی العبارۃ  الاولیٰ والثانیۃ ۔

لیکن  چونکہ معاملہ ربواء کا ہے  جس کی حرمت قرآنی آیتوں سے بغیر  کسی قید کے منصوص  ہے اس لیے  بیشتر علماء  کرامؒ نے اس بارے  میں  جمہور فقہاء کے مسلک  کو ترجیح  دی ہے اوار حضرات  طرفین ؒ  کے مسلک  کو مرجوح  قرار دیاہے ۔ جمہور  فقہاء کرام ؒ  کا مسلک کئی وجوہ  سے راجح ہے  جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :

 1۔ امام  ابو حنیفہ ؒ  اور امام  محمد  ؒ کے دارا لحرب  میں کافر  حربی  سے سود کو جائز  قرار دینے  کی بناء  صرف  ایک حدیث ہر ہے  جو کہ قابل استدلال  نہیں ۔ کما فی العبارۃ الثالثہ والرابعۃ ۔ اگر  اس حدیث  کو تسلیم  کر بھی لیاجائے  اور کافر حربی  سے سود کو جائز کہا جائے تو اس کے مقابلے  میں قرآنی  کی آیات کثیرہ  اور احادیث کا ذخیرہ موجود ہے کہ جن  میں سود کی حرمت کا ذکر بلا کسی قید کے موجود ہے ۔

 2۔ قرآن کی آیت ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨)  میں ربوا ء کی حرمت مصرح  ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی توسودی  معاملہ کرنے والے سب  حربی تھے اس کے باوجود بقیہ ربوا سے حضوراکرم ﷺ نے منع فرمایا۔

3۔ جمہور فقہاء ؒ کا  قول احتیاط  پر مبنی ہے  حضرات  طرفین ؒ  کے قول  پرعمل کرنا احتیاط کے منافی ہے  ۔

4۔ جمہور فقہاء ؒ کے قول  پر عمل کیا جائےتو اختلاف  فقہاء سے بچاؤ حاصل ہوجاتا ہے ۔

 5 ۔ حضرات طرفین  نے دارالحرب  میں کافر حربی  سے سود کو چند شرائط کے ساتھ  جائز قرار  دیاہے ظاہر  ہے کہ ان شرائط  کی پابندی  عموماً مشکل ہے ۔

 6۔ قول مرجوع کے مطابق  عمل کیا جائے  تو سودی  معاملہ  کرنے کا گناہ  پھر بھی باقی  رہتا ہے  اگر چہ مال  کو حرام نہ کہیں ۔

7 ۔ طرفین  ؒ کی ظنی دلیل  ہے جبکہ فقہاء کی دلیل نصوص قطعیہ  پر مبنی ہے ۔

جیسا کہ ماقبل  میں وضاحت کی گئی ہے کہ دلائل مذکورہ  کے پیش نظر دارالحرب میں سودی  معاملہ اورعقود فاسدہ  کو ناجائز  قرار دینا احتیاط پر مبنی ہونے  کی وجہ سے  درست  ہی نہیں بلکہ مستحسن  ہے البتہ  ج ولوگ دیانت داری سے دارالحرب  میں سود  کے مسئلے  میں امام اعطم ؒ کے قول  پر اس کی جملہ  شرائط  کے ساتھ عمل کرنے کے قائل  ہوں ۔ اگر ان کا موقف دیانت  دار نہ ہو تو مسئلہ مجتہد  فیہ ہونے کی بناء پر  ان کو صدر بنانے میں شرعاً حرمت کی کوئی وجہ معلوم  نہیں ہوتی  ،ہاں ایسے لوگوں کی صدارت پر قائم  رہنے سے لوگوں میں افتراق وانتشار کا خطرہ ہوتا ہو تو ان کو صدارت سے انتظاماً بر طرف کرنے میں  بھی کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی ۔

1۔ولا بین حربی  ومسلم  مستامن ولو بعقد فاسداو قمار  ( ثمہ ) لان مالہ ثمہ مباح فیحل برضاہ مطلقا بلا عذر خلاف للثانی  والثلاثہ ۔ ( الدر المختار علی ھامش الشامی۔ باب الربوا ۔5/186 )

2۔رد المختار، باب الربوا۔ مطلب  فی استقراض  فی الدراھم عددا۔ 5/186)

3۔نصب الرایۃ لاحادیث الھدایہ۔ باب الربوا-رقم الحدیث:6295-4/44- دارالکتب  العلمیۃ  

حکیم الامت  حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانویؒ نے امدادالفتاویٰ ج۔ 3 ص 117 اوررسالہ تحذیر الاخوان  عن الربا فی الہندوستان  میں “لاربا بین المسلم  والحربی” میں لا کو نہی کے معنی میں ہونے کا احتمال ذکر فرمایا ہے  جیسا  کہ قرآن  کریم میں  آیت  ” لارفث ولا جدال  فی الحج ” میں لا نہی کے معنی میں ہے ۔ (۔امدادالفتاوی- کتاب الربوا- سوال: 203۔3/153 ۔ ط مکتبہ دارالعلوم  کراچی تحذیر  الاخوان  عن الربا  فی الھندوستان ص 5

چنانچہ  کتب میں بھی اس کی نظیریں ملتی ہیں مثلا ردا لمختار  میں علامہ ابن عابدین الشامی ؒ نے اس کی تصریح  کی ہے ، ملاحظہ ہو ۔

ردالمختار علی الدر المختار –باب الربوا-مطلب فی استقراض فی الدراھم عددا۔5/186۔

 جواب  صحیح ہے  اورحضرت مفتی اعظم  پاکستان  مولانا مفتی شفیع عثمانی  صاحب دیوبندی  ؒ نے بھی امدادلمفتین باب الربوا  والقمار میں ص 751 مطبوعہ  جدید پر بھی یہی فتویٰ دیاہے کہ  دارالحرب  میں غیر مسلموں سے سود لینے میں اختلاف  ہے ۔امام اعظم  اور امام محمد جائز  فرماتے ہیں اور جمہور علماء اور امام مالک اور امام شافعی  اور امام احمد بن حنبل  اور حنفیہ میں  سے امام ابو یوسف   حرام  فرماتے ہیں  روایات اورقرآن کریم میں  بظاہر  مطلقاً سود کی حرمت اورسخت وعیدیں مذکور ہیں ۔ اس لیے احتیاط  یہی ہے کہ ناجائز قراردیاجائے

دارالافتاء جامعہ علوم الاسلامیہ  بنوری ٹاؤن

اپنا تبصرہ بھیجیں