دیہات میں جمعہ کی شرعی حیثیت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

حضرت مفتی صاحب  عرض یہ ہے کہ ہماری بستی شہر سے ایک کلو میٹر دور ہے جو کہ تقریبا 80 گھروں پر مشتمل ہے اس کی آبادی تقریبا 300 افراد کی ہے۔دو دکانیں ہیں کریانے کی ۔جن سے مکمل سامان بھی نہیں ملتا۔کیا وہاں شرعا  جمعہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟

اور  وہاں چارمرتبہ جمعہ پڑھا چکے ہیں۔ آخری جمعہ میں 20 سے 25 نمازی تھے۔امام مسجد کہتے ہیں کہ مجھے علاقے والوں نے کہا ہے۔ کیا علاقے والوں کے کہنے سے جمعہ فرض ہوتا ہے یا نہیں؟ شرعا کیا حکم ہے۔اس بستی میں اور کوئی دکان نہیں نیز جواز جمعہ کی شرائط کیا ہیں؟

تنقیحات:

سنارے والا گاؤں سے شہر(خان گڑھ) والوں کوکیا فوائد ملتے ہیں؟ آیا قبرستان یا اور کوئی کام  شہر کے مفاد کے لیے کیا جاتا ہے؟

سنارے والا بستی کے رہائشی کیا کام کاج کرتے ہیں؟

قریبی شہر کون سا ہے؟

بستی سنارے والا اور شہر کے درمیان کوئی نہر  یا ایسا حصہ ہے  جس سے گاؤں کا  شہر سے تعلق ختم ہوجاتا ہو؟

سنارے والا بستی کے اطراف میں گاؤں وغیرہ کتنی مسافت پر ہیں؟ اور وہاں  اداء جمعہ کی شرائط پر نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے ؟

جواب تنقیح

شہر والوں کو کوئی فائدہ نہیں ملتا ،سوائے ایک چیز کے کہ ہماری بستی میں چاروں طرف آم کے باغات ہیں وہ ملتے ہیں۔

کچھ مزدوری کرتے ہیں اور 7 افراد سرکاری نوکری کے لیے شہر جاتے ہیں۔بچے وغیرہ بھی پڑھنے شہر جاتے ہیں۔

قریبی شہر خان گڑھ ہی ہے

بستی اور شہر کے درمیان ایک نہر ہے۔جو بستی کو شہر سے الگ کرتی ہے۔

بستی کے اطراف میں  بستی صدیق آباد اور محلہ فاروق آباد  بھی بستیاں ہیں۔یہاں جمعہ ہوتا ہے ۔ لیکن شک میں ہے۔

سائل: غلام یاسین ومحمد سعید

ضلع مظفر گڑھ ،شہر خان گڑھ بستی سنارے والا

            0303.0779145

الجواب حامداومصلیا

 جمعہ درست ہونے کے  لیے  فقہ  حنفی میں  شہر ،شہرکے مضافات( جو شہر سے ملا ہوا ہو اور  شہری ضروریات کے لیے مختص ہو مثلا قبرستان،کچرا کونڈی ،کھیلوں کی سرگرمیاں ،شہر کی حفاظت کے لیے فوجی چوکیاں وغیرہ )یا  اتنا بڑا گاؤں ہونا ضروی ہے جس میں کئی شاہراہیں اور بازار وغیرہ ہوں  اورجہاں عام ضروریات زندگی کی اشیاء بسہولت میسر ہوسکیں ڈاک خانہ،تھانہ ،قاضی، مفتی موجود ہو جن سے  عوام اپنے مسائل کی دادرسی کرواسکیں۔

سوال میں بستی سنارے والا کی بتائی گئی صورت حال  کے مطابق یہ بستی شہریا اس کے  مضافات کے حکم میں نہیں  کیونکہ اس بستی سے عام شہریوں کی تمام ضروریات  میسر نہیں اور نہ ہی شہر کے مصالح اس بستی سے متعلق  ہیں اور نہ ہی یہ  بڑا  گاؤں ہے،بستی کے افراد  سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی تمام ضروریات کے لیے شہر کا رخ کرتے ہیں ۔ لہٰذا موجودہ  صورت میں بستی سنارے والا میں جمعہ  قائم کرنا درست نہیں۔نیز سنارے والا کے رہائشیوں پر جمعہ کے لیے شہر کا سفر کرنا ضروری نہیں ۔البتہ اگر جاکر جمعہ ادا کرلیں گے تو ادا ہوجائےگا۔

واضح رہے جمعہ قائم کرنے  کے لیے اس کی   شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔بستی کےافراد کے جمعہ قائم کرنے کے بارے میں کہنے سے جمعہ قائم کرنا  ضروری نہیں ہوجاتا۔

الحجة علی ماقلنا

۱۔السنن الكبرى للبيهقي (3/ 254)

 عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: ” لَا جُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيقَ إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ

۲۔مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 168)

 عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: «لَا جُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيقَ إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ» وَكَانَ يَعُدُّ الْأَمْصَارَ: الْبَصْرَةُ، وَالْكُوفَةُ، وَالْمَدِينَةُ، وَالْبَحْرَيْنِ، وَمِصْرُ، وَالشَّامُ، وَالْجَزِيرَةُ، وَرُبَّمَا قَالَ: الْيَمَنُ وَالْيَمَامَةُ “، عَبْدُ الرَّزَّاقِ،

۳۔مصنف ابن أبي شيبة (1/ 439)

عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «لَا جُمُعَةَ، وَلَا تَشْرِيقَ، وَلَا صَلَاةَ فِطْرٍ وَلَا أَضْحَى، إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ، أَوْ مَدِينَةٍ عَظِيمَةٍ» قَالَ حَجَّاجٌ: وَسَمِعْتُ عَطَاءً، يَقُولُ: مِثْلَ ذَلِكَ

۴۔بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع۔باب الجمعة‌ ،فصل فی بیان الشرائط (1/ 259)

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة۔

۵۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137) ایچ ایم سعید

عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ إلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك. اهـ. (قوله له أمير وقاض) أي مقيمان فالاعتبار بقاض يأتي أحيانا يسمى قاضي الناحية ولم يذكر المفتي اكتفاء بذكر القاضي لأن القضاء في الصدر الأول كان وظيفة المجتهدين حتى لو لم يكن الوالي والقاضي مفتيا اشترط المفتي كما في الخلاصة.

۶۔فيض البارى شرح صحيح البخارى ۔ باب الجُمُعَةِ في القُرَى وَالمُدُن  (3/ 128)

واعلم أنّ القرية والمِصْر من الأشياء العُرْفِية التي لا تكاد تَنْضَبِط بحالٍ وإن نُصَّ، ولذا ترك الفقهاء تَعريفَ المِصْر على العُرْف كما ذكره في «البدائع» ، وإنما تَوَجّهوا إلى تحديد المِصْر الجامع، فهذه الحدود كلُّها بعد كونها مِصْرًا. فإِنَّ المِصْر الجامع أخصُّ من مُطْلق المِصْر، فقد يَتَحَقَّق المِصْرُ ولا يكون جامعًا

۷۔الدر المختار (2/ 137)

(المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض يقدر على إقامة الحدود يقدر على إقامة الحدود۔۔۔ (أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا۔۔۔ (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل۔

۸۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 153)

(وشرط لافتراضها) تسعة تختص بها (إقامة بمصر)

(قوله: إقامة) خرج به المسافر، وقوله: بمصر أخرج الإقامة في غيره

۹۔المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 68)

ولو كان بين ذلك الموضع وبين عمران المصر فرجة من المزارع والمراعي لا جمعة على أهل ذلك الموضع، وإن كان النداء يبلغهم، والغلوة والميل والأميال ليست بشيء.

۱۰۔امداد الفتاوی جدید ۔ مطول حاشیہ شبیر احمد القاسمی 3: 164

فناء مصر کی تعریف یہ ہے کہ جس موضع سے مصر کے باشندوں کے مصالح واغراض متعلق ہوں کسی مقدار اور مسافت کی تحدید نہیں ہے۔

۱۱۔ارشاد المفتیین میں ہے : ۴/۴۲۵ (از مفتی حمید اللہ جان صاحب نوراللہ مرقدہ)

جواز جمعہ کے لیے مصریافناء مصریاایساقریہ کبیرہ کہ جس میں بازاردکانیں وغیرہ ہوں اوروہ جگہ ایسی ہو کہ آس پاس کے دیہات کے لیے تجارتی مرکز ہوشرط ہے ، اور مذکورہ بالاگاؤں میں یہ شرائط مفقودہیں لہٰذا اس گاؤں میں جمعہ جائز نہیں ہے ۔

۱۲۔فتاوی دار العلوم دیوبند  میں ہے: 5/71

 ایک گائوں شہر سے ایک میل کی مسافت پر ہے فناء شہر سے بالکل جدا ہے بعض فقہاء نے تعریف فناء کومعتبر سمجھا ہے تو ان کے نزدیک وہاں جمعہ واجب نہیں مگر جنہوں نے تقدیر الفناء بالمسافت فرمائی ان کے قول کے مطابق وہاں جمعہ واجب ہے کیونکہ موضع مذکور ایک فرسخ کے اندر ہے اور فرسخ پر بہتوں کا فتویٰ ہے آیا اس گائوں میں جمعہ واجب ہے یا نہیں ؟

(الجواب ) تحدید بالفراسخ مطلقاً معبتر نہیں بلکہ اعتبار فناء مصر میں ا س کا ہے کہ وہ جگہ مصالح مصر کے لئے ہے یا نہیں ۔ اگر مصالح مصر کے لئے نہیں ہے بلکہ جداگانہ قریہ ہے تو اس کاحکم دربارہ جمعہ مستقل ہے یعنی اگر وہ قریہ کبیرہ ہے جمعہ اس میں واجب وادا ہوگا ورنہ نہیں قال فی الشامی والتعریف احسن من التحدید الخ۔

 ۱۳۔فتاوی دار العلوم دیوبندمیں ہے: 5/ 126

شہر کے قرب و جوار کے دیہات والوں کو جمعہ کے لئے شہر میں آنا ضروری نہیں ہے اور نہ آنے سے وہ آثم نہ ہوں گے

۱۴۔فتاوی محمودیہ میں ہے: ۱۲/۲۷۸

امام اعظمؒ کے نزدیک فناء مصر کی کوئی تحدید نہیں ہے بلکہ مختلف ہوتی رہتی ہیں پس اس قول پر اگر وہ جگہ عرفاً فناء مصر شمار کی جاتی ہے تب تو وہ ملحق بالمصر ہے اور وہاں جمعہ جائز ہے ورنہ نہیں

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ
نور محمد ریسرچ سینٹر
دھوراجی کراچی
۱۹/۶/۱۴۴۱ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں