دینی مسائل کی تضحیک کرنا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

اس طرح کے لطیفے بنانا اور شیر کرنا کیسا ہے کیا اس سے دینی مسائل کی تضحیک کا پہلو نہیں نکلتا؟

لوگوں کی رہنمائی کیجئے کہ دینی مسائل کا مذاق بنانا کتنا خطرناک ہے اور اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں ؟

”حفظ قرآن“شوہر سے قرآن مجیدحفظ نہیں ہو رہا تھا،بیگم سے سوء حفظ کی شکایت کی۔بیگم نے قسم اٹھا کر یقین دلایا کہ اگر وہ ایک سال میں حفظ کرے تو وہ اس کی دوسری شادی کروا دے گی۔

پھر کیا تھا ۔۔۔۔شوہر نےچھ ماہ کی مدت میں سارا قرآن مجید حفظ کرلیا ۔

اور بیگم صاحبہ نے تین دن روزے رکھ کر قسم توڑنے کا کفارہ دے دیا ۔ “

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! 

دین کے بارے کسی عمل کا یا سنت کا مذاق اُڑانا اور لطیفہ کی طرح صرف لوگوں کو ہنسانے کے لیے ایساکرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن یہاں بیوی نے ازراہ تفنن ایک بات کہی تھی،یہ جائز ہے ۔اور

شریعت نے مزاح کا پہلو اختیار کرنے کا منع نہیں کیا ہے۔

(مشکوٰة ص۴۱۶)

عن انسٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق ۔

(مرقاة ج۸ ص۶۱۷)

    علامہ نووی فرماتے ہیں:

  اعلم ان المزاح المنہی عنہ ہو الذی فیہ افراط ویداوم علیہ فانہ یورث الضحک وقسوة القلب ویشغل عن ذکر اللّٰہ والفکر فی مہمات الدینِ ویوٴول فی کثیر من الاوقاتِ الی الایذاء ویورث الاحقاد ویسقط المہابة والوقار فاما من سلم من ہذہ الامور فہو المباح الذی کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفعلہ علی الندرة لمصلحةٍ تطیب نفس المخاطب وموانسة وہو سنة مستحبة۔ 

فقط 

واللہ اعلم

7 ربیع الثانی 1442 ھ

23 نومبر 2020ء

اپنا تبصرہ بھیجیں