ڈونیشن کی رقم سے اپنی بہبن کی مدد کرنا

سوال ۔ میں سوشل کام کرتی ہوں لوگ مجھے ڈونیشن دیتے ہیں تو میری بہن ہیں وہ شادی شدہ ہیں وہ بہت زیادہ بیمار ہوئی ابھی کچھ دن پہلے ان کے میاں کا کام نہیں ۔ مطلب انکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ علاج کرواسکیں اسی طرح انہیں گھر پر رکھا ہوا تھا اور ان کو خون کی الٹیاں ہورہی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ میں مدد کردیتی ہوں آپ کی ان پیسوں میں سے ۔ پھر جب آپ کے پاس ہوں تو مجھے پیسے دے دیجیے گا ۔ یہ صحیح ہے یا نہیں ؟ 

میرے پاس جو ڈونیشن آتی ہے میں بالکل بھی ان پیسوں میں سے خرچ نہیں کرتی وہ میرے پاس امانت ہوتی ہے اور وہ میں ان لوگوں تک ہی پہنچاتی ہوں جو اس کے حق دار ہیں اورمیں اللہ کی کسی پکڑ میں نہیں آنا چاہتی تبھی یہ سوال کررہی ہوں ۔ 

تنقیح۔ ڈونیشن کس مصرف کے لیے دیتے ہیں زکوة یا نفلی صدقہ؟ 

جواب تنقیح۔ نہیں جو زکوة ہوتی ہے وہ بتاکر دیتی ہوں اور وہ لوگ بھی بتاکر دیتے ہیں پر جو ڈونیشن دیتے ہیں لوگ وہ صرف مدد کرنے کے لیے ہوتی ہے زکوة یا صدقہ نہیں ہوتی ۔

الجواب باسم ملھم الصواب 

اگر ڈونشین دینے والوں نے اس رقم سے مطلقا ہر ضرورت مند کی مدد کرنے کی صراحتا یا دلالة اجازت دے دی ہو یا مکمل اختیار دیا ہو مثلا یہ کہا ہو کہ ” آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کردیں“ تو اس صورت میں آپ کا اپنی بہن کی ضرورت پراس رقم میں سے خرچ کرنا درست تھا کیونکہ اختیار دینے کی صورت میں دینے والوں کا منشا کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرنا ہے جو کہ یہاں پوری ہورہی ہے البتہ اگر دینے والوں کی نیت کسی خاص افراد کے لیے تھی تو پھر اس صورت میں رقم اسی مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

“ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع”. (2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

“الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان”. (45/ 87، الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال، ط: طبع الوزارة)

اپنا تبصرہ بھیجیں