دوران نماز بچہ نے آکر مصلی پر پیشاب کردیا اب نماز کا کیا حکم ہے

سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے میں ایک شخص نے نماز آخری تشھد تک پڑھا حتیکہ  آخری تشھد بھی پڑھا اس کے بعد ایک بچہ نے اس کے مصلی پر پیشاب کیا اب مطلوب امر یہ ہے  کہ اس کی نمازہوگئی یا نہیں مع حوالہ تحریر فرمائیں؟

فتویٰ نمبر:140

الجواب حامدا و مصلیا

تشہد میں بیٹھنے کی صورت میں اگر بچے کا پیشاب کپڑوں پر نہیں لگا تو نماز ادا ہوگئی اور اگر تشہد کی بقدر بیٹھنے کے بعدکپڑوں کوپیشاب یا کوئی اور ایسی نجاست لگ گئی جو نماز سے مانع ہے تو ایسی صورت میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک نماز باطل ہوجائے گی جبکہ امام ابویوسفؒ و محمدؒ کے نزدیک نماز ادا ہوجائے گی البتہ سلام کے ترک کی وجہ سے نماز وقت کے اندر اندر قابل اعادہ ہے۔نیز عبادات میں احتیاط کی وجہ سے امام ابوحنیفہ کے قول پر عمل كي وجه سے نمازلوٹالینا بہتر ہے۔

الدر المختار – (1 / 606)
(و) اعلم أنه (إن تعمد عملا ينافيها بعد جلوسه قدر التشهد) ولو بعد سبق حدثه (تمت) لتمام فرائضها، نعم تعاد لترك واجب السلام (ولو) وجد المنافي (بلا صنعه) قبل القعود بطلت اتفاقا، ولو (بعده بطلت) في المسائل الاثني عشرية عنده. وقالا: صحت،
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (1 / 607)
ثم قال الشرنبلالي بعدما أطال في رده: ومن المقرر طلب الاحتياط في صحة العبادة لتبرأ ذمة المكلف بها وليس الاحتياط إلا بقول الإمام الأعظم إنها تبطل. اهـ. قلت: وعليه المتون
فتح القدير للمحقق ابن الهمام الحنفي – (2 / 254)
( وإن رآه بعدما قعد قدر التشهد أو كان ماسحا فانقضت مدة مسحه أو خلع خفيه بعمل يسير أو كان أميا فتعلم سورة أو عريانا فوجد ثوبا ، أو موميا فقدر على الركوع والسجود ، أو تذكر فائتة عليه قبل هذه أو أحدث الإمام القارئ فاستخلف أميا أو طلعت الشمس في الفجر أو دخل وقت العصر في الجمعة ، أو كان ماسحا على الجبيرة فسقطت عن برء ، أو كان صاحب عذر فانقطع عذره كالمستحاضة ومن بمعناها بطلت صلاته في قول أبي حنيفة رحمه الله وقالا تمت صلاته ) وقيل الأصل فيه أن الخروج عن الصلاة بصنع المصلي فرض عند أبي حنيفة رحمه الله وليس بفرض عندهما  فاعتراض هذه العوارض عنده في هذه الحالة كاعتراضها في خلال الصلاة وعندهما كاعتراضها بعد التسليم .
واللہ تعالی اعلم بالصواب

مفتی محمد عاصم صاحب 

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں