اہل تشیع سے تعلق رکھنے والوں سے میل جول کا حکم

سوال:میرے چچا کے بیٹے نے ایک شیعہ خمینی لڑکی سے شادی کی ہے، چچا چچی اور ان کی اولاد سب اس شادی پر دل سے رضامند تھے شادی اور تقریبات میں اکثر خاندان والوں نے شرکت کی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد اب چچا اور ان کے خاندان سے میل جول کا کیا حکم ہے ؟ ۔

جن خاندان والوں نے اس شادی پر رضامندی ظاہر کی اور شرکت کی ان سے میل جول اور ان کے گھر انے جانے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کی غمی وخوشی میں جانا درست ہے؟ اگر گھر کی کسی تقریب میں ان سے ملاقات ہو تو کیا سلام دعا کرسکتے ہیں؟

الجواب باسم ملہم الصواب:

واضح رہے کہ اگر کوئی شیعہ قرآن مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتا ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’ بدا‘‘ کا عقیدہ رکھتاہو (یعنی نعوذباللہ کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) یا اس کو تسلیم کرتا ہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز ہی نہیں ہوگا اور اگر مذکورہ عقائد میں سے اس کا کوئی عقیدہ نہیں ہے، یا اس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ نہیں ہے یا وہ اپنے عقائد سے صدق دل سے توبہ کرے اور مذکورہ عقائد سے بھی براءت کرے اور ایسے عقیدے رکھنے والوں سے بھی براء ت کرے تو سنی لڑکے کا نکاح اس سے جائز ہوگا۔

صورت مسئولہ میں لڑکی اگر ان کفریہ عقائد میں سے کسی بھی عقیدے پر اعتقاد نہیں رکھتی،یا صدق دل سے توبہ کرچکی تھی پھر تو نکاح برقرار ہے،لیکن اگر ان کفریہ عقائد میں سے کسی ایک عقیدے پر بھی اعتقاد رکھتی ہے تو پھر ان کا نکاح باطل ہے۔

سائل پر لازم ہے کہ اپنے چچا اور ان کے گھر والوں کو حکمت سے سمجھاتے رہیں کہ ان کفریہ عقائد کی وجہ سے نکاح ہوا ہی نہیں،لڑکے کو چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کا تعلق لڑکی سے قائم نہ رکھے، اور اگر لڑکی اپنے کفریہ عقائد سے براءت کا اظہار کرکے توبہ تائب ہوجاتی ہے تو پھر سے نکاح کیا جائے گا۔

جہاں تک آپ کے تعلق رکھنے کی بات ہے تو اگر آپ کے چچا اور ان کے گھر والے سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھتے اور تعلق رکھنے سے اصلاح کی امید بھی نہیں ہے تو آپ کےلیے ان سے قطع تعلق جائز ہے، بلکہ اگر تعلق کے نتیجے میں اپنے ماحول اور دیانت داری کو خطرہ ہو یا کسی اور مضرت کا اندیشہ ہو تو شرعی حکم یہی ہے کہ اہل باطل سے قطع تعلق رکھا جائے،تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ (کماصرح به فی عمدة القاری وفتح الباری مرقاة المفاتیح)

اسی طرح خاندان کے وہ افراد جنھوں نے اس شادی پر رضامندی ظاہر کی،ان سے اس بنا پر تعلق رکھا جائے کہ کہیں ان لوگوں کے عقائد ان لوگوں(شیعہ) کے عقائد باطلہ کی وجہ سے خراب نہ ہوجائیں، لیکن اگر اصلاح کے باوجود اپنے عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ان کی تقریبات میں شرکت کرنے،ان سے میل جول رکھنے سے اجتناب کیا جائے۔

وہ شیعہ جو اپنے عقائد و افکار کی وجہ سے فاسق ہیں، لیکن کافر نہیں ہیں ان سے شریعت کے مطابق سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز ہے،اور جو شیعہ کافر یا مرتد ہیں انہیں سلام کرنے میں ”السلام علی من اتبع الھدی“ اور جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہنا چاہیے۔

===================

دلائل:-

١۔قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ:

”وَلاَ تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ“.

(ہود، جزء آیت: ۱۱۳)

ترجمہ:”اور تم ان لوگوں سے میل جول نہ رکھو جنہوں نے ظلم کیا ہے ورنہ تمہیں بھی آگ چھوۓ۔“

٢۔قال اللّٰہ تعالیٰ:

”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی اَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ“.

(المائدۃ، جزء آیت: ۵۱)

ترجمہ:”اے ایمان والو! یہود اور نصاری کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔“

٣۔”عن أبي نضرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لھم: إني راکب إلی یھود فمن انطلق معي منکم فلا تبدأوھم بالسلام، فإن سلموا علیکم فقولوا: وعلیکم، فلما جئناھم سلموا علینا، فقلنا: وعلیکم“۔

٤۔عن قتادۃ قال: التسلیم علی أھل الکتاب إذا دخلت علیھم بیوتھم أن تقول: السلام علی من اتبع الھدیٰ۔

(شعب الإیمان للبیہقي / فصل في السلام علی أہل الذمۃ:٦؍٤٦۲ رقم: ۸٩.۴-۸۹۰۷ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

٥۔ذھب الفقہاء إلیٰ أن أفضل الأعمال التي تقرب إلی اللّٰه، حب العلماء والصالحین وأھل العدل والخیر … کما یجب علی المؤمن أن یبغض أھل الجور والخیانة؛ لأن ھذا من محبة اللّٰه، فإن علی المحب أن یحب ما یحب محبوبه ویبغض ما یبغض محبوبه، لحدیث: ’’وأن یحب المرء لا یحبه إلا للّٰه۔

(الموسوعة الفقہیة، مادۃ: محبة / محبة العلماء والصالحین وعموم المؤمنین ۳۶؍۱۸۷-۱۸۸ وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ الکویت)

٦۔لاشک فی تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی الله تعالی عنھا،او انکر صحبة الصدیق رضی الله عنه،او اعتقد الالوھیة فی علی رضی الله عنه،او ان جبرئیل علیه السلام غلط فی الوحی،او نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن ۔“

(شامی٣٥٣/٣)

(رد المحتار:باب المرتد،مطلب مھم فی حکم سب الشیخین:٢٣٧/٤)

٧۔”وبهذا ظهر أن الرافضي ان كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة”.

(ردالمحتار: ٣ / ٤٦ سعيد)

٨۔”اراد بھذہ الترجمة بیان الھجران الجائز؛ لان عموم النھی مخصوص بمن لم یکن لھجره سبب مشروع، فتبین ھنا السبب المسوغ للھجر وھو لمن صدرت منہ معصیة فیسوغ لمن اطلع علیھا منہ ھجرہ علیھا لیکف عنھا۔“

(فتح الباری:قوله:باب ما یجوز من الھجران لمن عصی،٤٩٧/١٠،ط:دارالمعرفة بیروت)

فقط والله أعلم

15/اکتوبر 2021ء

8ربیع الاول1443ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں