فرائض کے بعد کی اجتماعی  دعا  کا ثبوت اور درجہ

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:43

 سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام  ۔

  • کیا فرض نماز کے بعد امام کا اجتماعی طور پر دعا کرنااور مقتدیوں کا آمین آمین کہنا حدیثوسنت سے ثابت ہے اگر ثابت ہے تو حوالہ تحریر فرمائیں اور اگرثابت نہیں تو کیا اسے بدعت کہنا صحیح ہوگا جیسا  کہ بعض حضرات کہتے  ہیں (خصوصاً سعودی عرب میں )
  • نماز کے علاوہ دیگر کسی  اہم  موقع پر مثلا میت کے لیے  یا درس قرآن  وحدیث یا وعظوتبلیغ  کے مواقع پر اجتماعی طور  پر دعا کرنا صحیح ہے یا  بدعت ہے جیسا کہ ایک عالم حکیم  محمود  دیوبندی  صاحب نے اپنی ایک کتاب  میں لکھا ہےاور کوئٹہ (ژوب ) سے شائع کیا ہے ۔
  • حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ کا  رسالہ ” النفاس المرغوبہ فی حکم الدعاء بعد المکتوبۃ ” ( مکتبہ تھانوی ) میں مولانا  عبدالحیئ علیہ الرحمۃ  کے فتویٰ کا حوالہ ہے اس میں ایک حدیث لکھی ہے کہ  ” ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے پیچھے نماز  پڑھی  آپ نے  سلام پھیرا اور ہماری طرف مڑگئے  پھر ہاتھ  اٹھایا اور  دعا کی ” ۔ ( مصنف عبدالرزاق )

لیکن ایک صاحب نے مجھے جدہ میں یہ کتاب  طبع شدہ   دکھائی جسے  دارالسلفیہ والوں نے چھپا پا  ہے   اس میں حدیث کا آخری ٹکڑا  یعنی  ” ثم رفع  یدیہ ودعا ” نہیں ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ صحیح حدیث کیا ہے اور یہ اختلاف کیوں ہے ؟

 الجواب  حامداومصلیا

  • فرض نمازوں کے  بعد اجتماعی  طورپر دعا کرنے ک اجو طریقہ رائج  ہے یہ درست ہے اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں محققین علماء اورفقہاء دارالعلوم  دیوبند کی  یہی  تحقیق ہے اسی پر ان کا عمل ہے اس موضوع پر ان حضرات کے مدلل فتاویٰ اور تحقیقی رسائل موجود ہیں مثلا حضرت تھانوی ؒ  کا ایک  رسالہ ” استجاب الدعوات عقیب الصلوۃ ”  ہے اور ایک رسالہ  حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ کا  ” النفائس المرغوبۃ فی حکم الدعاء بعد المکتوبۃ ” ہے ۔

ان  تمام  اکابر فقہاء کرام  نے احادیث طیبہ  اورچاروں  اماموں کی معتبر کتابوں  کے حوالوں  سے فرائض کے بعد کی جانے والی دعا کو نہ صرف جائز بلکہ سنت مستحبہ  قرار دیا ہے ۔

اور ان اکابر ؒ نے ان رسائل  میں ایسی واضح  واضح  احادیث طیبہ جمع فرمائی ہیں  جن سے امام  ، مقتدی  اور منفرد سب کے واسطے  فرض نماز کے بعد دعا کا سنت ہونا ثابت ہے  اور جب ان  سب کے لیے یہ دعا سنت  ہے توفرائض  کے بعد امام اور مقتدی  جب اس  سنت پر عمل کرتے ہوئے  دعا کریں گے تو ضمنا ً خود بخود اجتماع ہوجائے گا ۔ لیکن  یہ  اجتماع ایک ضمنی چیز ہے  اور جائز ہے اس کے لیے الگ سے صریح  اور مستقل  ثبوت کا طلب  ہہونا اور ثبوت نہ ملنے  پر اس کو بدعت قراردینا  درست نہیں بلکہ مخدوم  محمد ہاشم  ٹھٹھوری  ؒ  نے فرائض  کے بعد ہونے والی اجتماعی  دعا کے بارے میں  ایک رسالہ تحریر  کیاہے  جس کا نام  ” التحفۃ المرغوبۃ فی افضلیۃ الدعاء بعد الکمکتوبۃ ” ہے  اس میں مخدوم  صاحب  نے اس اجتماعی  دعا کےبدعت  قراردینے والوں کو مفصل جواب  دیاہے  ۔

چنانچہ اس رسالہ کا اقتباس ملاحظہ ہو :۔

 قلت  فثبت بجمیع ماذکرنا فی ھذین الفصلین ۔۔۔۔۔۔ واما الروایات ۔۔الخ

 خلاصہ یہ کہ فرائض  کے بعد اجتماعی  دعا کے تمام اجزاء  یعنی نفس دعا  اوردونوں ہاتھ اٹھانا،آمین کہنا اور ختم دعا پر دونوں  ہاتھ چہرہ پر پھیرنا ، سب احادیث  طیبہ سے ثابت ہے  لہذااس کے مجموعہ  کو بدعت کہنا درست نہیں  ہے ۔

البتہ  یہ دعا آہستہ اور چپکے  چپکے  مانگنا افضل ہے  کیونکہ قرآن  وسنت میں اس کی زیادہ ترغیب  دی گئی ہے  اور اگر کبھی  کبھی امام  بلند آواز  سے دعا کرے اور مقتدی  اس پر آمین کہے  تو تعلیماً یہ بھی جائز ہے  لیکن واضح رہے کہ فرائض   کے بعد کی  مذکورہ دعا کا درجہ  تفصیل  بالا کی روشنی میں بہت سے بہت سنت  مستحبہ ہے لہذا اس  دعا کو اس کے درجہ میں رکھتےہوئے کرنا چاہیے۔

 بعض  لوگ اس دعا   کو فرض  وواجب  کی  طرح ضروری سمجھتے ہیں اور اسی  درجہ میں اس پر عمل کرتے ہیں  سو یہ واجب  الترک ہے اسی طرح  بعض لوگ  اس کا التزام کرتے ہیں  کہ امام  اور مقتدی  سب مل کر  ہی دعا کریں ابتداء بھی سااتھ کرے اور انتہا بھی ساتھ  ہو جیسا کہ بعض مساجد میں دیکھا جاتاہے  کہ امام کی  دعا  کے شروع میں مؤذن  زور سے الحمد للہ  رب العالمین  پڑھتا ہے  اور جب امام دعا ختم  کرتا ہے  تو برحمتک یا ارحم الراحمین ، پکار کر کہتا ہے  اس کو ترک کرنا ضروری ہے کیونکہ اس التزام کا نتیجہ یہ ہے  مقتدی حضرات امام کی دعا کا انتظار کرتے رہتے ہیں کوئی مقتدی  امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا نہیں کرسکتا ، ورنہ لوگ اس پر طعن  کرتے ہیں اور اس کے اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں حالانکہ اوپر لکھاجاچکاہے  کہ اس دعا میں اجتماع اصل مقصود نہیں بلکہ  وہ ایک ضمنی چیز ہے لہذا تابع   کو اصل دعا کے درجہ  سے آگے بڑھانا بھی درست نہیں جتنی  دیر چاہے  امام دعا کرے اور  جتنی دیر  چاہے مقتدی  دعا مانگے دونوں  ایک دوسرے  کے تابع نہیں     ہیں ، مقتدی  کو اختیار ہے کہ اپنی مختصر دعا مانگ کر چلاجائے  اور چاہے امام کے ساتھ دعا ختم  کرے اور چاہے امام کی دعا سے زیادہ  دیر تک دعا  کرتا رہے ہر طرح جائز ہے اور ہر طرح  فرائض کے بعد کی  یہ سنت مستحبہ  اداہوجاتی ہے ۔

 (2) درس قرآن  یا درس حدیث یا وعظ  عتبلیغ کے موقع پر اجتماعی طور پر  دعا کرنا بلاشبہ جائز ہے اور حدیث ذیل  اورصحابی  کے عمل سے ایسی  اجتماعی دعا کرنا صراحت کے ساتھ ثابت ہے  اور تعامل امت بھی اس کے جائز ہونے کی مستقل  دلیل ہے لہذا  اس کو بدعت قرار دینا درست نہیں ہے ۔

 مجمع الزوائد میں ایک مستقل باب اس موضوع سے متعلق ہے  ذیل میں اس کو نقل کیا جاتا ہے ملاحظہ ہو :۔

 باب التامین علی الدعاء  (ج:10/170 )

اور مسلم  شریف کی حدیث ذیل بھی اجتماعی  ذکر کے بعد اجتماعی دعاء واستغفار کت بارے میں ہے :۔

وفی الروایۃ مسلم قال ان اللہ ۔۔۔الخ

ا( مشکوٰۃ ج :1 ص 197 )

 3 ) حدیث مذکور میں یہ حصہ ” فلما سلم انحرف  ورفع یدیہ ودعا ” کے بارے میں جامعہ دارالعلوم  کراچی  کے درجہ تخصص  فی الفقہ کے فاضل مولوی  عبدالمالک  سلمہ نے  تحقیق کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث نے  ” رفع یدیہ  وعاء  ” کے الفاظ ثابت نہیں ہیں  ذیل میں ان کی تحقیق  نقل کرتا ہوں  :۔

 عن الاسود  العامری  عن ابیہ قال : صلیت مع رسول اللہ ﷺ فلما سلم انحرف رفع یدیہ ودعاء ۔ کذ الخ   ص : 202 المطبوعۃ فی آخر ” المعجم الصغیر “

وکذلک  العلامۃ البنوی فی  معارف السنن ج : 3۔ص ؛ 123 ) 

 والعلامۃ العثمانی فی اعلاء ۔۔۔

الاول : کتاب الصلوۃ : باب   من کان یستجب اذا سلم ان یقوم او ینحرف ۔

الثانی : کتاب الرد علی ابن حنیفۃ لیس فی واحد ۔۔الخ  ( راجع المصنف  لابن ابی شیبۃ ج : ص 302 ، من طبعہ ادارۃ القرآن و ج : 1 ص 302 من طبعۃ الدارالسلفیۃ طبعۃ ادارۃ القرآن ، و ج : 14 ص 186من طبعۃ الداراللفیۃ بومبائی ۔

واخرج ھذ الحدیث ۔۔۔۔ والترمذی  فی جامعہ ج : 1 ص 427 ابواب الصلوۃ ،  باب ماجاء  فی الجماعۃ فی مسجد قد صلی  فیہ ، والنسائی فی السنن  الکبری  ج : 1 ص 396 ۔

باب الانحراف  بعدالتسلیم ۔ وفی المجتبیٰ ایضا ج : 3 ۔ ص : 67،

کتاب الصلوۃ، باب الانحراف  بعدا لتسلیم ومن طریقۃ ابن حزم  فی المحلی ج : 4 ص 262 ۔

البتہ  حضرت امام  طبرانی ؒ  نے المعجم الکبیر میں اور علامہ  ہیثمی نے مجمع الزوائد ( 10 / 169) میں اورعلامہ  سیوطی ؒ  نے اپنا رسالہ  ” فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء ” میں ( ص : 86 ) حضرت عبد اللہ  بن زبیر رضی اللہ عنہ کی درج ذیل  روایت ذکر فرمائی ہے  ۔

46۔ عن محمد بن یحییٰ الاسلمی  قال : رایت  عبداللہ بن الزبیر ورای رجلا رافعا یدیہ، یدعو قبل ان یفرغ  من صلاتہ فلما فرغ منھا قال : ” ان رسول اللہ ﷺ لم یکن   یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ ” رجالہ ثقات

 قال الھیثمی فی مجمع الزوائد ( 10 /129)  رواہ الطبرانی  وترجم  لہ فقال  محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی عن عبداللہ  بن الزبیر، ورجلہ  ثقات ۔ ( فض  الوعاص : 86 )

 ترجمہ : حضرت محمد بن یحییٰ اسلمیؒ فرماتے ہیں   میں نے حضرت عبداللہ  بن زبیر رضی اللہ  عنہ کو  دیکھا اور انہوں نے  ایک شکص کو دیکھا کہ وہ نماز  سے فارغ ہونے سے پہلے  ہی ہاتھ اٹھا ئے دعا کررہاہے جب وہ نماز  سے فارغ  ہوا توحضرت  عبداللہ  بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نےا س سے فرمایا:  رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے تھے  اس وقت  تک  ( دعا کے لیے ) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے  ( لہذا  تم بھی ایسا ہی  کیا کرو )

اس حدیث سے تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں اور  یہ حدیث صحیح ہے ۔

اور فرض نماز کے بعد کی جانے والی دعا میں ہاتھ اٹھانے پر واضح طورپر دلالت کررہی ہے نیز مطلق دعا میں  ہاتھ اٹھانا صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے اور اس کلیہ میں  فرائض کے بعد کی دعا بھی شامل ہے اس لیے  فرض نمازوں کے بعد یاتھ اٹھا کر دعا کرنا بلاشبہ درست ہے ۔ واللہ اعلم 

 دارالافتاء جامعہ  دارالعلوم کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں