فرض حج کو مؤخر کر نے کا حکم

سوال :میرے تین لڑکے ہیں بڑا پندرہ سال کا ہے اور سب سے چھوٹا دس سال کا۔ مجھ پر حج فرض ہے، شوہر پر نہیں ہے۔ اس سال بھائی کا حج پر جانے کا ارادہ ہے تو میں بھی ساتھ جانا چاہتی ہوں۔
شوہر کا کہنا ہے کہ ہم سب ساتھ جائیں گے اور ویسے بھی تمہارے جانے کے بعد میں بچے اور گھر کیسے دیکھوں گا۔ بچوں کو اسکول اور مجھے آفس جانا ہوگا۔ تو کیا اس صورتحال میں میرا حج کو مؤخر کرنا درست ہوگا؟
واضح رہے کہ میں بیرونِ پاکستان مقیم ہوں تو بچوں کو کسی رشتہ دار کے پاس چھوڑنا بھی ممکن نہیں ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب
مذکورہ صورت میں جب آپ پر حج فرض ہوچکا ہے اور محرم کا بندوبست بھی ہوگیا ہے تو بہتر ہے کہ بچوں کو مناسب تربیت کر کے اکیلے رہنے کا انتظام کیا جائے اوراگر بچوں کے لیے اکیلے رہنا ممکن نہ ہو اور آس پاس بھی کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہے کیونکہ آپ بیرون ملک مقیم ہیں تو پھر حج کو مؤخر کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ْفِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَقَامُ اِبْرَاھِیْمَ ج وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ آمِناًط وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(آل عمران :96,97)۔
ترجمہ :حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا یقینی طورپر وہ ہے جو مکہ میں واقع ہے ، (اور) بنانے کے وقت ہی سے برکتوں والا اور دنیا جہان کے لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان ہے ۔اس میں روشن نشانیاں ہیں ، مقامِ ابراہیم ہے ، اور جو اس میںداخل ہوتا ہے امن پاجاتا ہے ۔اور لوگوں میں سے جو لوگ بیت اللہ تک آنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کے لئے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے ۔اور اگر کوئی انکار کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے نیاز ہے.
2:عن علی قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : “من ملک زادا وراحلۃ تبلغہ الی بیت اللہ ولم یحج فلاعلیہ أن یموت یھودیا، أونصرانیا ، وذلک أن اللہ یقول فی کتابہ “(وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً)(آل عمران97)(سنن الترمذی :167/3)
ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کی سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے ، تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ــ”اللہ تعالیٰ کے لئے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔”(ترمذی)
3:تعجلوا الخروج الی مکۃ فان أحدکم لا یدری مایعرض لہ من مرض اوحاجۃ “الدیلمی عن ابن عباس” (کنزالعمال ۔ 16/5)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حج میں جلدی کرو، کسی کو کیا خبر کہ بعد میں کوئی مرض پیش آجائے یا کوئی اور ضرورت درمیان میں لاحق ہوجائے ۔ (کنز العمال)
4:رد المحتار: (458/2)
”بخلاف ما لو ملكه مسلماً فلم يحج حتى افتقر حيث يتقرر وجوبه ديناً في ذمته، فتح، وهو ظاهر على القول بالفورية لا التراخي، نهر. قلت: وفيه نظر ؛ لأن على القول بالتراخي يتحقق الوجوب من أول سني الإمكان، ولكنه يتخير في أدائه فيه أو بعده، كما في الصلاة تجب بأول الوقت موسعاً، وإلا لزم أن لا يتحقق الوجوب إلا قبيل الموت، وأن لا يجب الإحجاج على من كان صحيحاً ثم مرض أو عمي، وأن لا يأثم المفرط بالتأخير إذا مات قبل الأداء، وكل ذلك خلاف الإجماع، فتدبر”.
5:وعند وجود المحرم کان علیہا ان تحج حجة الاسلام وان لم یأذن لہا زوجہا اھ الفتاوی الہندیة: ۱/۲۱۹ (مطبوعہ زکریا)
6:فصل فی موانع وجوب الحج واعذارسقوطہ… (الصبا) ای کو نہ صبیاأو صبیۃ من اھل التمیز وغیرہ )ص20 المناسک ملا علی قاری(
والله سبحانه وتعالى اعلم
8جمادی الاخری1444
تاريخ 1/1/23

اپنا تبصرہ بھیجیں