فضائل نماز: پہلی قسط

فضائل نماز

پہلی قسط

اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کی بہت بڑی فضیلت ہے، کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز سے زیادہ پیاری نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ وقت کی نماز فرض فرمائی ہیں،ان کے پڑھنے کا بڑا ثواب اور ان کا چھوڑنا بڑا گناہ ہے۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’جو اچھی طرح وضو کرے اور خوب دل لگا کر اچھی طرح نماز پڑھے،اللہ تعالیٰ اس کے تمام صغیرہ گناہ بخش دے گا اور جنت عطا کردے گا۔‘‘ ( جمع الفوائد : ۱/۵۳ )

دین کا ستون

ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’نماز دین کا ستون ہے لہٰذاجس نے نمازکو اچھی طرح پڑھا اس نے دین کو ٹھیک رکھا اور جس نے اس ستون کو گرادیا (یعنی نماز نہ پڑھی) اس نے دین کوبرباد کردیا۔‘‘

روشن چہرہ

ارشاد نبوی ﷺ ہے:’’قیامت میں سب سے پہلے نماز ہی کی پوچھ گچھ ہوگی اور نمازیوں کے ہاتھ،پاؤں اور چہرہ قیامت میں آفتاب کی طرح چمکتے ہوں گے اور بے نمازی اس دولت سے محروم رہیں گے۔ ‘‘

نمازیوں کا مرتبہ

ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’نمازیوں کا حشر قیامت کے دن انبیاء اور اولیاء کے ساتھ ہوگا اور بے نمازیوں کا حشر فرعون، ہامان، قارون اوران جیسے بڑے بڑے کافروں کے ساتھ ہوگا۔‘‘

اس لیے نماز پڑھنا بہت ضروری ہے اور نہ پڑھنے سے دین اور دنیا دونوں کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیاہوگا کہ بے نمازی کا حشر کافروں کے ساتھ ہوگا، بے نمازی کافروں کے برابر سمجھا گیا۔

نماز بے حیائی سے روکتی ہے

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ’’بیشک نماز بے حیائی اور گناہ سے روک دیتی ہے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ نماز باقاعدہ پڑھنے سے ایسی برکت ہوتی ہے کہ نمازی تمام گناہوں سے بچا رہتا ہے، اگر چہ اور بھی بعض عبادتیں ایسی ہیں جن سے یہ برکت حاصل ہوتی ہے، مگر نماز کو اس میں خاص دخل ہے اور نمازاس حوالے سے اعلیٰ درجہ کی تاثیررکھتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ نماز سنت کے مطابق عمدہ طریقے سے ادا کی جائے، نمازی کے دل میں اللہ پاک کی عظمت ہو، ظاہر اور باطن سکون وعاجزی سے بھرا ہو، ادھر ادھر نہ دیکھے، جس درجہ نماز کو کامل ادا کرے گا اسی درجہ برکت حاصل ہوگی، حق تعالیٰ کو کوئی عبادت نمازسے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ مسلمان کے لیے ضرور ی ہے کہ ایسی عبادت جو تمام گناہوں سے روک دے اور دوزخ سے نجات دلادے اس کو نہایت اہتمام سے ادا کرے اور کبھی قضا نہ کرے۔

قبولیت ِنماز کی علامت

حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’جس شخص نے ایسی نماز پڑھی کہ نماز نے اس نمازی کو بے حیائی کے (کاموں) اور گناہ (کی باتوں) سے نہ روکا تو وہ شخص اس نماز کے سبب اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا اور کسی بات میں نہ بڑھا۔ “

یعنی اس کو نماز کے سبب قرب خداوندی اور ثواب میسر نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ سے دوری بڑھے گی اور یہ اس بات کی سزا ہے کہ اس نے ایسی پیاری عبادت کی قدر نہ کی اور اس کا حق ادا نہ کیا۔ پس معلوم ہوا کہ نماز قبول ہونے کی کسوٹی اورپہچان یہ ہے کہ نمازی نماز پڑھنے کے سبب گناہوں سے باز رہے اور اگر کبھی اتفاق سے کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرلے۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺسے روایت کرتے ہیں: ’’بے شک اس نمازی کی نماز مقبول نہیں ہوتی (اور اس کو ثواب نہیں ملتا اگر چہ بعض صورتوں میں فرض ذِمّے سے اتر جاتا ہے اور کچھ ثواب بھی مل جاتا ہے) جو نماز کی تابعداری نہ کرے اور نماز کی تابعداری (کی پہچان یا اس کا اثر) یہ ہے کہ نماز نمازی کو بے حیائی (کے کاموں) اور گناہ (کی باتوں) سے روک دے۔ ‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں