فضائل نماز:تیسری قسط

فضائل نماز

تیسری قسط

سب سے پہلے حساب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’بے شک قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر نماز درست ہوگی تو اس کے باقی تمام اعمال درست ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوگی تو اس کے باقی سب اعمال بھی خراب ہوں گے۔ پھر حق تعالیٰ فرمائیں گے: ’’اے فرشتو! دیکھو میرے بندے کے پاس کچھ نفل نمازیں بھی ہیں؟‘‘ اگر کچھ نفل نمازیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت سے ان نفلوں کے ذریعے اس کے فرضوں کی کمی پوری کردی جائے گی۔ اسی طرح باقی فرائض کی کمی نوافل سے پوری کردی جائے گی، جیسے فرض روزہ کی کمی نفل روزہ سے پوری کی جائے گی۔‘‘ ( رواہ ابن عساکر بسند حسن کذا فی کنزالعمال : ج ۴ )

یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ فرض کو نفل سے پورا کیا جائے گا، ورنہ قانون کا تقاضا یہ ہے کہ فرض کی تکمیل نفل سے نہ ہو بلکہ جب فرض پورا نہ ہو تو عذاب دیا جائے، مگر سبحان اللہ! رحمت ِخداوندی کا کیا ٹھکانہ ہے اور جس کے فرائض درست نہ ہوں گے اور نوافل بھی نہ ہوں گے تو اسے عذاب دیا جائے گا، البتہ اگر اللہ تعالیٰ رحم کردے تو یہ دوسری بات ہے۔

افضل ترین عبادت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے بندوں پر جو عبادتیں فرض کی ہیں ان میں سے سب سے افضل نماز ہے۔ جو شخص اسے بڑھاسکتا ہے وہ اسے خوب بڑھائے۔‘‘ (کثرت سے نمازپڑھے تاکہ ثواب زیادہ ملے۔)

جنت میں داخلہ کی ذمہ داری

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اے محمد! بیشک میں نے تیری امت پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں۔ جس شخص نے ان کو مکمل وضو کے ساتھ اپنے اوقات کے اندر کامل رکوع وسجدہ کے ساتھ پورا پورا ادا کردیا تو اس کے لیے ان نمازوں کی وجہ سے میری یہ ذمہ داری ہے کہ اسے جنت میں داخل کروں ۔اور جو میرے پاس اس حال میں آیا کہ اس نے ان نمازوں میں کوتاہی کی ہوگی، اس کے لیے میری کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر چاہوں تو اسے عذاب دوں اور چاہوں تو اس پر رحم کردوں۔‘‘ ( کنز العمال )

نور کا باعث

فرمایا: ’’نماز سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے، پس جو چاہے اپنے دل کو منور کردے۔‘‘ ( رواہ الدیلمی )

افضل ترین فرض

نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے توحید اور نماز سے زیادہ کوئی افضل چیزفرض نہیں کی۔ اگر ان سے زیادہ کوئی چیز افضل ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں پر فرض فرماتے۔ فرشتوں میں سے کوئی رکوع کررہاہے اور کوئی سجدے کی حالت میں (مشغول ِعبادت) ہے۔ ‘‘

یعنی فرشتے چونکہ پاکیزہ اور اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں، ان میں عبادت ہی کا مادہ رکھا گیا ہے، اس لیے انہیں عبادت سے خاص لگاؤ ہے، تو اگر کوئی عبادت نماز سے افضل ہوتی تو ان پرفرض کی جاتی۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح نماز مجموعی ہیئت سے ہم پر فرض ہے، فرشتوں پر اس طرح مجموعی ہیئت سے فرض نہیں بلکہ اس کے مختلف اجزا مختلف فرشتوں پرفرض کیے گئے ہیں ( بعض پر رکوع فرض ہے اور بعض پر سجدہ وغیرہ)تو ہماری کتنی خوش نصیبی ہے کہ اس عبادت کے وہ اجزاجو فرشتوں پر تقسیم کرکے فرض کیے گئے ہیں وہ سب مجموعی اعتبار سے ہمیں عطاہوئے ہیں، ہماری نماز میں قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ سب کچھ ہے، اس لیے اس نعمت کی بہت قدر کرنی چاہیے۔

آخری نماز

حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’نماز میں اپنی موت کو یاد کرو،جو بھی نماز میں موت کو یاد کرے گا وہ ضرور عمدہ طریقے سے نماز ادا کرے گا اور اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو اپنی زندگی کی آخری نماز پڑھ رہا ہو اور ایسے کام سے بچو جس سے معذرت کرنی پڑے۔‘‘ ( رواہ الدیلمی عن أنس مرفوعا وحسنہ الحافظ بن حجر )

افضل نماز

فرمایا: ’’افضل نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو، یعنی جس میں قرآن زیادہ پڑھا جائے۔‘‘( رواہ الطحاوی وسعید بن منصور )

بغیر خشوع کے نماز

فرمایا: ’’اس شخص کی نماز (کامل) نہیں ہوتی جو نماز میں عاجزی اختیار نہیں کرتا۔‘‘ ( رواہ الدیلمی )

حدیث میں (( تخشع )) کا لفظ آیا ہے اس کامعنی عاجزی سے کیا گیاہے۔ (( تخشع )) کا حقیقی معنی ’’سکون‘‘ ہے مگر چونکہ عاجزی کے بغیر سکون میسر نہیں آسکتا اس لیے ترجمہ عاجزی سے کیاگیاہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب آدمی میں عاجزی نہ ہوگی اور بے دھڑک ہو کر بے باکی سے اٹھے بیٹھے گا تو یہ نہیں ہوسکتا کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، ہلے جلے نہیں، بلکہ وہ آزاد رہے گا اور جب عاجزی ہوگی تو پورے ادب کے ساتھ ادھر ادھر دیکھے بغیر پورے سکون سے نماز ادا کرے گا۔

آخری وصیت

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکا آخری ارشاد یہ تھا: ’’نماز کا اہتمام کرو، باندیوں اور غلاموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔‘‘ ( کنز العمال )یہ دونوں باتیں اتنی اہم تھیں کہ رسول اللہﷺنے دنیا سے روانگی کے وقت بھی ان کا خاص طور سے ذکر فرمایا، اس لیے کہ لوگ نماز میں بھی کوتاہی کرتے ہیں، نیز باندیوں اورغلاموں کو تکلیف دینے اور انہیں حقیر سمجھنے کو معمولی بات خیال کرتے ہیں، مسلمانوں کو اس طرف تو جہ دینی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں