فرعون کی لاش کے حوالے سے تحقیق

سوال: اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا کہ” ہم نے فرعون کے بدن کو نجات دے دی” اور ہم نے یہ سنا ہے کہ فرعون کی لاش کو اللہ تعالی نے نشانہ عبرت بنادیا تھا اور اس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ سمندر نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تھا جو مصر کے میوزیم میں بغیر مصالحے کے رکھی ہوئی ہے اور وہ سڑتی نہیں ہے۔

تو ایک خاتون خود مصر گئیں اور وہ لاش دیکھ کر آئیں، انہیں میوزیم کے منتظمین نے بتایا کہ یہ ساری لاشیں اسی زمانے کے بادشاہوں کی ہیں انہیں مرنے کے بعد مصالحہ لگا کر ممی بنا کر رکھ دیا جاتا تھا اور انہی میں وہ فرعون بھی موجود ہے لیکن وہ لوگ اس کی تعیین نہیں کرسکے۔

اللہ تعالی کے ارشاد ہر ہمارا تو یقین ہے کہ یہ سچ ہے لیکن علماء کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ کیا واقعۃ فرعون کی لاش ابھی تک بغیر مصالحہ کے اسی میوزیم میں رکھی ہوئی ہے یا اللہ تعالی نے اسے صرف اس وقت کے لیے نشان عبرت بنایا تھا؟

الجواب باسم ملھم الصواب

قرآن مجید میں فرعون کی لاش کے متعلق ارشاد ہے:

”فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً “

ترجمہ:سو آج ہم بچائے دیتے ہیں تیرے بدن کو تاکہ ہوجائے تو اپنے پچھلوں کے واسطے نشانی اور بے شک بہت سے لوگ ہماری قدرتوں پر توجہ نہیں کرتے۔

اس آیت کی مختصر تفسیر یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسرائیلیوں کو فرعون کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی تو وہ فرعون سے اس قدر مرعوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے تو اللہ نے ان کی راہ نمائی اور دوسروں کی عبرت کے لیے فرعون کی لاش کو دریا کی موج کے ذریعہ باہر ڈال دیا، جس کو دیکھ کر لوگوں نے اس کی ہلاکت کا یقین کرلیا اور یہ لاش سب کے لیے نمونہ عبرت بن گئی پھر معلوم نہیں اس لاش کا کیا ہوا۔

کوئی عجب نہیں کہ قدرت نے جس طرح غرق شدہ لاش کو عبرت کے لیے کنارہ پر ڈال دیا تھا ،اسی طرح آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کے لیے اسے گلنے اور سڑنے سے محفوظ رکھا ہو اور وہ اب تک موجود ہو، بہرحال مصر کے میوزیم میں موجود فرعون کی لاش کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ تفسیر الطبری(15/ 197)

وقوله : ( فاليوم ننجيك ببدنك لتكون لمن خلفك آية ) قال ابن عباس وغيره من السلف : إن بعض بني إسرائيل شكوا في موت فرعون ، فأمر الله تعالى البحر أن يلقيه بجسده بلا روح ، وعليه درعه المعروفة [ به ] على نجوة من الأرض وهو المكان المرتفع ، ليتحققوا موته وهلاكه ؛ ولهذا قال تعالى : ( فاليوم ننجيك ) أي : نرفعك على نشز من الأرض ، ( ببدنك ) قال مجاهد : بجسدك . وقال الحسن : بجسم لا روح فيه . وقال عبد الله بن شداد : سويا صحيحا ، أي : لم يتمزق ليتحققوه ويعرفوه . وقال أبو صخر : بدرعك

وكل هذه الأقوال لا منافاة بينها ، كما تقدم ، والله أعلم .

وقوله : ( لتكون لمن خلفك آية ) أي : لتكون لبني إسرائيل دليلا على موتك وهلاكك ، وأن الله هو القادر الذي ناصية كل دابة بيده ، وأنه لا يقوم لغضبه شيء ؛ ولهذا قرأ بعض السلف : ” لتكون لمن خلقك آية وإن كثيرا من الناس عن آياتنا لغافلون ” أي : لا يتعظون بها ، ولا يعتبرون .

2۔ تفسیر معارف القران(4/ 567)

“جب موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے غرق ہونے کی خبر دی تو وہ لوگ فرعون سے اس قدر مرعوب و مغلوب تھے کہ اس کا انکار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ فرعون ہلاک نہیں ہوا۔ جس پر اللہ تعالی نے ان کی ہدایت اور دوسروں کی عبرت کے لیے دریا کی موج کے ذریعے فرعون کی لاش کو ساحل پر ڈال دیا جس کو سب نے دیکھا اور فرعون کی ہلاکت کا یقین ہوا۔

3۔ فتاوی حقانیہ (2/ 144)

“مصریوں کو 1962 میں کچھ لاشیں ملیں جنہیں دیکھ کر آثار قدیمہ کے بعض ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی کہ یہ فرعون کی لاش ہے لیکن یہ بات ابھی تک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے جس کا حضرت موسی علیہ السلام سے مقابلہ ہوا تھا کیونکہ اس زمانے کے ہر بارشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔ جہاں تک سورہ یونس کی آیت کریمہ سے اس کے لیے سہارا لینے کی کوشش کی گئی ہے تو یہ ایک بے سود کوشش ہے کیونکہ قرآن کریم کی اس آیت کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی لاش قیامت تک محفوظ رہے گی۔”

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۲۸ ربیع الثانی۱۴۴۳ھ

5 دسمبر 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں