فوت شدہ بچے کے عقیقے کا حکم

سوال: اگر کسی چھوٹی بچی کا پیدائش کے دوسرے / تیسرے دن انتقال ہوجائے تو اسکے عقیقے کے متعلق کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب:
واضح رہے کہ عقیقہ کرنا ایک مستحب عمل ہے واجب نہیں ہے اور یہ زندہ اور پیدائش کے بعد فوت ہونے والے دونوں بچوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے،
لہذااگر کوئی بچہ یابچی پیدائش کے ایک یا دو دن بعد انتقال کرجائے تو اس کا عقیقہ کرنا بھی مستحب ہے،البتہ اگر کوئی نہ کرے تو کوئی گناہ بھی نہیں۔
=====================
حوالہ جات:
1) إن الغلام مرتهن بعقيقته “ وأجود شروحه ماذكره أحمد ، وحاصله: أن الغلام إذا لم يعق عنه ، فمات لم يشفع لوالدايه، ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين، قلت: بل يجوز إلى أن يموت، لمارأیت فی بعض الروايات أن النبي صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بنفسه .
فیض الباری: (337/4)

2)” ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور“۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية(2/213)

3) ”لو مات المولود قبل السابع استحبّت العقیقة عندنا، و قال الحسن البصري و مالك لاتستحبّ۔“

المجموع شرح المہذب (8/432)
واللہ اعلم باالصواب
11دسمبر2022
17جمادی الاولی 1443

اپنا تبصرہ بھیجیں