گاڑی یا رکشہ کرایہ پر دینا

سوال:1.مفتی صاحب ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک پورے رکشے کی مالیت جو کہ دو لاکھ روپے ہے ایک دوسرے شخص کو دیتا ہے اور اس شخص کو کہتا ہے یہ تم اس پیسے سے ایک رکشا خریدو اور اس کے تمام اخراجات تم خود ہی برداشت کرو اور اس کو چلاؤ بھی خود اور اس کے بدلے ہر مہینے مجھے پانچ ہزار روپیہ اس رکشے کے کرائے طور پر دے دیا کرو اور یہ ایک سال کا معاہدہ کرے اور ایک سال کے بعد اگر میں چاہوں تو میں یہ اپنی رقم دو لاکھ روپے واپس لے لوں گا تو کیا ایسا جائز ہوگا؟

2.یعنی رکشہ خرید کر دینے والا صرف پیسے دے رہا ہے باقی محنت اور تمام اخراجات دوسرے شخص کے ذمہ ہیں۔

ایسے میں رکشاخرید کر دینے والے شخص کے لیے وہ پیسے کرائے کے طور پر لینے حلال ہوگے یا نہیں اگر نہیں ہوں گے تو اس کے حلال ہونے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

1.صورت مسؤلہ میں اگر مذکورہ شخص نے دو لاکھ روپے قرض کے طور دیے ہیں اور معاملہ یہ طے کیا ہے کہ سال بعد وہ دو لاکھ قرض وصول کرے گا اور جب تک قرض وصول نہ ہو تو اس وقت تک مقروض سے رکشہ کا کرایہ بھی لیتا رہے گا تو شریعت کی نظر میں یہ اجارہ نہیں،بلکہ قرض دے کر مقروض سے نفع وصول کرنا ہے، جو سود کے حکم میں آتا ہے، اس لیے یہ ناجائز اور حرام ہے۔

مذکورہ صورت میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ مالک خود یا وکیل کے ذریعے پہلے رکشہ خرید لے اور پھر دوسرے شخص کو یومیہ یا ماہانہ بنیاد پر کرایہ پر دے کر کرایہ وصول کرتا رہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ کرایہ پر دی ہوئی چیز میں ملکیت چوں کہ مالک کی ہوتی ہے، اس لیے ملکیت سے متعلقہ تمام ذمہ داری جو ڈرائیور کی تعدی کے بغیر ہو( جیسے رکشے کی مرمت کا کام) وہ مالک کی ہو گی۔

___________

حوالہ جات

1.وفي الدر مع الشامیہ:

کل قرض جر نفعا حرام۔ ( کتاب البیوع، باب المرابحۃ، مطلب: کل قرض جر نفعا حرام، زکریا 7/395)

2.کذا فی بدائع الصنائع:

ﻭاﻷﺻﻞ ﻓﻲ ﺷﺮﻁ اﻟﻌﻠﻢ ﺑﺎﻷﺟﺮﺓ ﻗﻮﻝ اﻟﻨﺒﻲ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – «ﻣﻦ اﺳﺘﺄﺟﺮ ﺃﺟﻴﺮا ﻓﻠﻴﻌﻠﻤﻪ ﺃﺟﺮﻩ» ﻭاﻟﻌﻠﻢ ﺑﺎﻷﺟﺮﺓ ﻻ ﻳﺤﺼﻞ ﺇﻻ ﺑﺎﻹﺷﺎﺭﺓ ﻭاﻟﺘﻌﻴﻴﻦ ﺃﻭ ﺑﺎﻟﺒﻴﺎﻥ۔

(ج: 4، ص: 193، ط: دار الکتب العلمیة)

3.کذا فی الدر المختار:

ﺗﻔﺴﺪ اﻹﺟﺎﺭﺓ ﺑﺎﻟﺸﺮﻭﻁ اﻟﻤﺨﺎﻟﻔﺔ ﻟﻤﻘﺘﻀﻰ اﻟﻌﻘﺪ ﻓﻜﻞ ﻣﺎ ﺃﻓﺴﺪ اﻟﺒﻴﻊ) ﻣﻤﺎ ﻣﺮ (ﻳﻔﺴﺪﻫﺎ) ﻛﺠﻬﺎﻟﺔ ﻣﺄﺟﻮﺭ ﺃﻭ ﺃﺟﺮﺓ ﺃﻭ ﻣﺪﺓ ﺃﻭ ﻋﻤﻞ۔

(ج: 6، ص: 47، ط: دار الفکر)

4:المبسوط للسرخسي:

“واشتراط تطيين الدار ومرمتها أو غلق باب عليها، أو إدخال جذع في سقفها على المستأجر مفسد للإجارة؛ لأنه مجهول، فقد شرط الأجر لنفسه على المستأجر”. (16/ 34)

5.بدائع الصنائع

“ولو استأجر داراً بأجرة معلومة وشرط الآجر تطيين الدار ومرمتها أو تعليق باب عليها أو إدخال جذع في سقفها على المستأجر فالإجارة فاسدة؛ لأن المشروط يصير أجرةً وهو مجهول فتصير الأجرة مجهولةً، وكذا إذا آجر أرضاً وشرط كري نهرها أو حفر بئرها أو ضرب مسناة عليها؛ لأن ذلك كله على المؤاجر، فإذا شرط على المستأجر فقد جعله أجرةً وهو مجهول فصارت الأجرة مجهولةً”

(4/ 194)

فقط

واللہ اعلم بالصواب

یکم ربیع الثانی 1443ھ

7نومبر 2021ء

اپنا تبصرہ بھیجیں