گھر کے اخراجات میں اگر ناجائز آمدنی بھی شامل ہو تو کیا حکم ہے؟

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم و رحمۃ الله و بركاته!

یہ مسئلہ کسی بہن نے پوچھا ہے جو پاکستان میں رہتی ہے۔

براۓ مہربانی رہنمائی کر دیں۔میری شادی کو تین سال ہوگئے ہیں دو بچے ہیں۔خالہ کے گھر شادی ہوئی ہے۔خالہ ہوتیں نہیں ہیں ،دوبھائی ہیں،میرے شوہر او ر جیٹھ جوائنٹ فیملی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ دونوں بھائیوں کا آفس ایک ہی ہے۔میرے شوہر کی کمائی100% حلال ہے پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں اور رات3سے4گھنٹے تک وظیفہ کرتے ہیں۔

مگر جیٹھ کا کام صحیح نہیں ہے جھوٹ بولتے ہیں سود لیتے ہیں اور سود دیتے ہیں لوگوں سے انویسٹمنٹ کرواتے ہیں۔کوئی کام صحیح نہیں ہوتا ہے اس لیے کامیابی نہیں ملتی ہے جس پروجیکٹ میں بھی کام کرنا چاہتے ہیں خرچ کرنے کی  وجہ سے ان کا ہر پروجیکٹ فیل ہو جاتا ہے۔اُنھوں نے کافی لوگوں کے ساتھ فراڈ بھی کیا ہے۔اُن کے معصوم سے ہانچ بچے ہیں ان کی بیوی بھی ٹھیک ہیں غصہ کی تیز ہیں فحش کلامی کرتی ہیں ۔اُن لوگوں کی شادی کو 14 سال ہو گئے ہیں کبھی بھی ان کی نہیں بنی ۔ میری شادی ہوئی تومجھے جھیٹھ کی عادتوں کا پتہ تھا۔میرے والد اس رشتہ کے خلاف تھے لیکن بھائی نے کہا کہ میرے شوہر اچھے آدمی ہیں اور حلال کماتے ہیں سارے خاندان نے والد پر دباؤ ڈالا۔شادی سے پہلے سننے میں آرہا تھا کہ مجھے الگ یونٹ دیں گے جو نہیں ملا۔

میں ذہنی انتشار کی شکار ہوں میں یہاں نہیں رہنا چاہتی ہوں میرے شوہر جتنا چاہے حلال کما لیں ہم گھر اور آفس شئیر کرتے ہیں جیٹھ کی آمدنی سے آنے والا پیسہ گھر میں استعمال ہوتا ہے اور ہم بھی کھاتے ہیں میں پریشان ہوں میں حرام کمائی یا سود پر لیا ہوا پیسہ یا دھوکہ سے لیا ہوا پیسہ نہ خود کھانا چاہتی ہوں نہ بچوں کو کھلانا چاہتی ہوں۔ میں کافی وقت سے الگ ہونے کا کہہ رہی ہوں مگر میرے شوہر مجھے ٹال دیتے ہیں۔میرا دم گھٹتا ہے۔مجھے غصہ آتا ہے۔گھر کا ماحول بھی ٹھیک نہیں ہے۔تقریباً ہر مہینے کی بات ہے قرض دار آتے ہیں بےعزتی کرتے ہیں آفس میں شور کرتے ہیں جیٹھ خودتو غائب ہو جاتے ہیں۔میرے شوہر کو سب کچھ اکیلے برداشت پڑتا ہے۔میرے شوہر اپنے بھائی کی غلطیاں بھگت رہےہیی اور اُن کا قرض اُتار اُتار کر خود بھی قرض دار ہوگئے ہیں اتنا خرچ ہوا ہے کہ اب ہمارے پاس کچھ بینک بیلنس بھی نہیں ہے۔(آمدنی اچھی ہے پر زیادہ تر پیسے جیٹھ کے خاندان پر خرچ ہو جاتے ہیں۔

کبھی سوچتی ہوں کہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں مہربانی سے رہنمائی کریں۔ جیٹھ میرے کزن ہیں مجھے حیا آتی ہے کہ میں ان باتوں پر کوئی مسئلہ اٹھاؤں مگر حیا اصل میں غلط کام کرنے والوں سے آنا چاہیے میں اللہ کو کیا جواب دوں گی میں ACوالے کمرے میں بڑےگھر میں آرام سے بیٹھ کر لوگوں کے پیسے کھاتی رہوں حرام کا سود کا،بے شک وہ جیٹھ نے کمایا ہے۔میرے شوہرکوہربات سمجھ آتی ہے مگر کہتےہیں کہ مشکل وقت اپنےبھائی کا ساتھ کیسے چھوڑو۔مہربانی سے رہنمائی کر دیں میں کیا کروں۔

الجواب باسم ملہم الصواب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

آپ کے سوال میں دو باتیں قابلِ غور ہیں:

1.شوہر اور جیٹھ کی مشترکہ آمدنی سے کھانا۔

2.الگ گھر کا مطالبہ کرنا۔

دونوں باتوں کے جواب بالترتیب ملاحظہ ہوں:

1.صورت مسئولہ میں بہتر تو یہی کہ آپ کے شوہر اپنے بھائی کو سمجھائیں کہ وہ غیر شرعی کام چھوڑ دیں اور حلا ل روزی کمائیں ۔

تاہم آپ کے اخراجات میں چونکہ حلال آمدنی بھی شامل ہے، لہذا اگر اکثر آمدنی حلال ہے اور دونوں آمدنیوں میں امتیاز مشکل ہے تو اکثر کا اعتبار کرکے آپ کا کھانا پینا درست ہو گا۔

2.مذکورہ صورت میں اگر ساتھ رہنے میں دشواری ہے اور شوہر کی الگ گھر دلوانے کی حیثیت رکھتا ہے تو شوہر پر بیوی کا شرعی اور اخلاقی حق ہے کہ اسے الگ گھر میں رکھے۔اگر الگ گھر میں رکھنے کی گنجائش نہیں تو کم از کم ایک الگ پورشن کی شکل میں ایسی جگہ دینی ہوگی جہاں بیوی کا مکمل اختیار ہو اور کسی کی مداخلت نہ ہو،مثلا:باورچی خانہ اور بیت الخلا الگ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یَا أَیُّہَا النَّاسُ کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوء ِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَی اللّہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ(۱۶۹) …(سورة البقرة)

          ترجمہ: ”اے لوگو! زمین میں جو کچھ حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ اورشیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تم کو یہ حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائی کے کام کرو اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔ “(آسان ترجمہٴ قرآن)

’’ یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ‘‘

ترجمہ :اے رسولو!پاکیزہ چیزیں  کھاؤ اور اچھاکام کرو،بیشک میں  تمہارے کاموں  کو جانتا ہوں ۔

“القاعدة الثانية من النوع الثاني: إذا اجتمع عند أحد مال حرام و حلال فالعبرة للغالب ما لم يتبين”. (١/ ١٤٧)

“تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك”. (فتاویٰ ہندیہ : الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

“إن أمكنه أن يجعل لها بيتًا على حدة في داره ليس لها غير ذلك”. (فتاوى شامي :مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

کما فی فقہ البیوع :

وقد اشتهر على الألسُن أنّ حكم التّعامل مع من كان مالُه مخلوطاً بالحلال والحرام أنّه إن كان الحلالُ فيها أكثر، جاز التّعاملُ معه بقبول هديّته وتعاقد البيع والشّراء معه، وبذلك صدرت بعضُ الفتاوى. ولكنّ ما يتحقّق بعد سبر كلام الفقهاء الحنفيّة فى هذا الموضوع أنّ اعتبارَالغلبة إنّما هو فى الصّورة الأولى، يعنى فيما إذا كان الحلالُ متميّزاً عن الحرام عند صاحبه، ولايعلمُ المتعاملُ معه أنّ ما يُعطيه من الحلال أو من الحرام. فحينئذٍ تُعتبر الغلبة، بمعنى أنّه إن كان أكثرُ ماله حلالاً، يُفرض أنّ ما يُعطيه من الحلال، والعكس بالعكس، كما قدّمنا نُصوصه فى الصّورة الأولى.

حدیث مبادکہ : رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” من راى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الإيمان “.(صحیح مسلم)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلاف شرع) کام کو دیکھے تو اس کو مٹا دے اپنے ہاتھ سے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی (دل میں اس کو برا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے۔“

بہشتی زیور میں ہے:

” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو  اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو‘‘۔

(بہشتی زیور، بعنوان: رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

 

فقط

واللہ اعلم باالصواب

7 محرم 1442 ھ

16 اگست 2021 ء

حدیث مبادکہ : رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” من راى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الإيمان “.(صحیح مسلم)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلاف شرع) کام کو دیکھے تو اس کو مٹا دے اپنے ہاتھ سے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی (دل میں اس کو برا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ سب سے کم درجہ کا ایمان ہے۔“

بہشتی زیور میں ہے:

” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو  اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو‘‘۔

(بہشتی زیور، بعنوان: رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

 

فقط

واللہ اعلم باالصواب

7 محرم 1442 ھ

16 اگست 2021 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں