گستاخانہ کلمات

سوال:اگر میری دعائیں قبول ہوتیں تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ مذکورہ جملہ اللہ تعالی کی شان میں گستاخی شمار ہوگا؟
الجواب باسم ملھم الصواب:
مذکورہ جملہ اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کے زمرے میں نہیں آتا تاہم اس سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کا پہلو ظاہر ہوتا ہے۔ بہرحال کہنے والا توبہ کرے ۔ بسا اوقات انسان کی دعا بعینہ قبول نہیں ہوتی بلکہ آخرت کے لیے ذخیرہ کر لی جاتی ہے۔
************************************
حوالہ جات :
1: لما فی القرآن :
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(سورہ زمر :53)
ترجمہ: تم فرماؤ :اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ، بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
2: لما فی الحدیث :
عن جابر رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : “ما من احد یدعو بدعا الا اتاہ الله ما سأل او کف عنهمن سوء مثله، مالم یدع باثم او قطیعة رحم” (جامع الترمذی: 3399 )
ترجمہ: جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو کوئی بندہ اللہ سے دعا کر کے مانگتا ہے اللہ اسے یا تو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتا ہے، یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کر دیتا ہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) کی دعا نہ کی ہو“
3: شرح عقود رسم المفتی:
السابعة: ما في البحر من باب المرتد نقلا عن الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا اجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية انه لا يكفّر اھ. ثم قال : والذی تحرر : انه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن، أو كان فى كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة. اھ. (ص:145- 144 ط الحجاز کراچی )
واللہ تعالی اعلم بالصواب
1 دسمبر 2022ء
7 جمادی الاولی 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں