حیض میں عمرہ اورحج

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:180

مکرمی محترمی حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم

اسلام علیکم ! کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام ان دو مسئلوں کے بارے میں ؟

1: عورت کرنے گئی اور عمرہ کا احرام باندھا لیکن حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کر سکی کہ حج کے ایام شروع ہوگئے تو وہ عورت احرام عمرہ کو احرام حج میں تبدیل کرسکتی ہےیا حج کا احرام الگ باندھنا پڑے گااور اس عورت پردم واجب ہوگا یا نہیں اگر دم واجب ہوگا تو کیوں حیض اس کے لیےقدرتی مجبوری ہے۔

2: اگر عورت حیض کی وجہ سے طواف زیارت نہ کر سکی اور واپسی کی تاریخ آگئی اور تاریخ واپسی بدل نہ سکی ۔ ایسی صورت میں عورت طواف زیارت کیسے کر ے ۔اگر اس حالت میں طواف کرے تو دم واجب ہوگا یا نہیں ۔اگر دم واجب ہوگا تو کیا چیز واجب ہوگی اور دم کیوں واجب ہوگا جبکہ یہ قدرتی مجبوری ہے۔

ہیوا تو جروا جزاکم اللہ خیر ا

المستفتی 

(حضرت مولانا )محمد انور(صاحب دامت برکاتہم) 

مہتمم جامعہ اسلامیہ عر بیہ

الجواب حامداً و مصلیاً

صورت مسئلہ میں وہ عورت چونکہ معذور ہے اور عمرہ مکمل نہیں کرسکتی لہذا وہ ایام حج میں حج کا احرام باندھ کر حج کے اعمال کرے گی پحر حیض سے فارغ ہونے کے بعد اور ایام تشریق کے بعد عمرہ کا جدید احرام باندھ کر سابقہ عمرہ کی قضاء کرے گی اور عمرہ چھوٹ جانے کی وجہ سے ایک دم بھی ادا کرنا ہوگا اور اس پر تمتع والی قربانی نہیں ہوگی۔ 

2).5 (ماخذہ تبویب 357/67) فی العنیۃ )

و لم یطف لعمرتہ او طاف لھا اقلہ و لو بعذر کحیض مثلا حتی وقت بعرفتہ لو توفت عمرتہ و ان لم ینو الوقفی لانہ نعذر علیہ اوادھا لانہ لو اواھا الوقوف لصار بانیا افعال العمرۃ علی افعال الحج و ھو عکس المشروع و بطل قوانہ و سقط عنہ دمہ و قضاءھا بعد ایام التشریق و دم رفضھا۔

2: صورت مسئلہ میں اگر مذکورہ عورت کو وطن واپسی کا سفر درپیش ہو اور ہر ممکنہ کوشش کے باوجود حکومتی پابندیوں کی وجہ سے عورت مکہ مکرمہ میں نہ ٹھہر سکتی ہو تو اس صورت میں ایسی عورت کے لیے حالت حیض میں مسجد احرام میں داخل ہونا اگر چہ حلال نہیں لیکن اگر وہ داخل ہو گئی اور طواف کر لیا تو اس کا طواف ہو جائے گا ۔تاہم اس عورت پر لازم ہے کہ وہ ایک گائے یا اونٹ حرم میں ذبح کرے اس سے اس کے حج کی تکمیل ہو جائے گی۔(ماخذہ تبویب 646/78)

واضح رہے کہ قدرتی مجبوری کے عذر ہونے کی وجہ سے مذکورہ عورت پر گناہ نہیں لیکن جنایت کے ارتکاب کی وجہ سے دم لازم آئے گا کیونکہ یہ دم سزا یا جرمانہ کے طور پر نہیں بلکہ حج یا عمرہ کے ارکان کو بطریق اکمل ادا نہ کرنے کی وجہ سے جو نقصا ن آ گیا ہے اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے ہے جیسے کہ اگر کوئی شخص حالت احرام میں کسی عذر کی وجہ سے سر کے بال منڈا نے پر مجبور ہوجائے تو اگر چہ عذر کی وجہ سے اس پر گناہ نہیں ہوگا لیکن اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے دم دینا اس پر لازم ہوگا ۔چنانچہ حدیث میں روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے سر کی جوؤں کی وجہ سے ان کو تکلیف ہو رہی تھی تو آپ ﷺ نے ان کو سر منڈانے اور دم دینے کا حکم فرمایا۔

فی الصحیح البخاری(140/244)

عن کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ قال: اوقف علی رسول اللہﷺ بالحذیبیۃ و راسی یتھافت قحلا، فقال: ا یؤذیک ھوامک، قلت: نعم، قال: احلق راسک او احلق، قال نی: نزلت ھذہ الایۃ “فَمَن کَانَ مِنکُم مَّریضاً اَوَابِہ اَذیً مِّن رَّ اسِہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی اخرھا و قال النبیﷺ لھم للانہ ایام او تصدق یعرف من سنۃ الاسلامی معاً تیسر۔

(و کذا فی الصحیح المسلم 7/253) و فی الھدایۃ (5/253)

و من طاف طواف القدوم محدثاً فعلیہ صدقۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لو طاف طواف الزیارۃ محدثاً مشناہ لافہ ادخل النقص فی الوکن و کان افحش من الاونی فبجبر بالندم و ان کان جنباً فعلیہ بدنۃ و کذا رومی عن ابن عباس رضی اللہ عنہ و لان جنابہ اغلظ من الحدث فیجب جبر نقصانھا بالبدنۃ اظھار التفاوت۔

(و فی بدر المختار 6/817)

تنبیہ: نقل بعض المحشین من مشک مشک ابن امیر حارج لو ھم الرکب علی العقول و لم تطھرنا فاستفت ھل تطوف ام لا؟ قالوا یقال لھا لا یمل لک دخول المسجد و ان دخلت و طفت اتمت و صح طوافک و علیک ذبح بلقۃ و ھذہ المسئلۃ کثیرۃ الوقوع یتحیر فیھا النساء – لھ – واللہ اعلم باصواب 

محمد عثمان غفر اللہ لہ 

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی 

23 – 12 – 1435

اپنا تبصرہ بھیجیں