حالت احرام میں خواتین کے سامنے کان،گردن کھولنا

فتوی نمبر:785

موضوع:فقہ الحج

🔎سوال: 

محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم،

عموما لوگ احرام کی حالت میں پورا پورا دن نیٹ کی ٹوپی جو آج کل فیشن میں ہے وہ پہن کر بیٹھے ہوتے ہیں ، کان ، گردن سب کھلا ہوتا ہے۔۔

سوال یہ ہے کہ نیٹ کی ٹوپی ہو کہ موٹے کپڑے کی ٹوپی ہو اس طرح پورا دن یا دن کا اکثر حصہ کان /گردن کھلا رکھ کر بیٹھ سکتے ہیں حالت احرام میں ؟

اگر نہیں تو جو اتنے حج عمرے کیے ہیں اس طرح اس کا کیا حکم ہے؟

والسلام

سائل کا نام:سارہ عبدالصمد

تنقیح: سوال کی مراد واضح کریں۔

جواب تنقیح:احرام میں صرف چہرہ ، ہاتھ کلائیوں تک اور پیر ٹخنے تک کھولنے کی اجازت ہے عورت کے سامنے بھی اس سے زیادہ نہیں ، ہم نے تو یہ سنا ہے۔۔ اس لیے آج کل پورا پورا دن حالت احرام میں دیندار عورتوں کو صرف ٹوپی میں دیکھ کر باقی عورتیں بھی ایسے ہی بیٹھی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے کان گردن سب کچھ کھلا ہوتا ہے پورا دن یا دن کا اکثر حصہ، منی کے کیمپ میں عورتوں کے درمیان یا ہوٹل کے روم میں (حالت احرام میں)۔۔ کیا اس سے کفارہ یا دم لازم آتا ہے؟

💢💢💢💢💢💢💢💢

⏩الجواب حامدۃو مصلية⏪

آپ کا سوال اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ حالت احرام میں چہرہ ،ہتھیلیاں اور ٹخنوں تک پاؤں کے سوا باقی جسم کھولنا جائز نہیں۔یہ بات درست نہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ عورت کا احرام یہ ہے کہ اس کےچہرے کو کپڑا نہ لگے۔یہ ایک الگ مسئلہ ہے، باقی پردے اور ستر کے احکام حالت احرام میں بھی وہی ہیں جو عام حالات میں ہیں،یعنی عورت پر اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانا بھی لازم ہے،اسی طرح صرف عورتوں کے سامنے سر،گردن وغیرہ کھولنا جائز ہے۔

لہذا اگر حالت احرام میں خواتین کے سامنے گردن یا کان کھلا ہو تو یہ جائز ہے اور اس سے کوئی دم یا جزا لازم نہیں آتی۔

▪لحديث ابن عمر مرفوعا: “لا تنتقب المرأة ولا تلبس القفازين

( البخاري:١٨٣٨)

▪وقال ابن عمر رضى الله عنهماإحرام المرأة في وجهها، وإحرام الرجل في رأسه.

( البيهقي:٥٤/٥)

▪وعن عائشۃ قالت کان الرکبان یمرون بنا ونحن مع رسول اﷲ ﷺ محرمات فاذا جازو ابنا سدلت احدانا جلبابھا من رأسھا علی وجھھا فاذا جاوزونا کشفناہ رواہ ابو داؤد ولابن ماجۃ معناہ۔

( المشكوة:٢٣٦/١)

▪ والمرأۃ فیمامر کاالرجل لعموم الخطاب مالم یقم دلیل الخصوص لکنھا تکشف وجھھا لا رأسھا ولو سدلت شیأ علیہ وجافتہ عنہ جاز) بل یندب وفی الشامیۃ و (قولہ وجافتہ) ای باعدتہ عنہ: قال فی الفتح: وقد جعلوا لذلک اعواداً کالقبۃ توضع علی الوجہ … … ……(قولہ جاز) أی من حیث الاحرام، بمعنی انہ لم یکن محظورا لانہ لیس بستر وقولہ بل یندب: ای خوفاً من رؤیۃ الاجانب: وعبر فی الفتح بالاستحباب، لکن صرح فی النھایۃ بالوجوب وفی المحیط، ودلت المسألۃ علی ان المرأۃ منھیۃ عن اظھار وجھھا للأجانب بلا ضرورۃ لانھا منھیۃ عن تغطیتہ لحق النسک لولا ذلک والا لم یکن لھذا الارخاء فائدۃ اھـ ونحوہ فی الخانیۃ۔

وفق فی البحر بما حاصلہ ان محمل الاستحباب عند عدم الاجانب، واما عند وجودھم فالإرخاء واجب علیھا عند الامکان، وعند عدمہ یجب علی الاجانب غض البصر.

( الدر المختار:٥٢٧/٢)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم : بنت ابو الخیر سیفی عفی عنہا

قمری تاریخ:٢٢ ذى القعدة١٤٣٩ ھ

عیسوی تاریخ:٥ اگست ٢٠١٨

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

➖➖➖➖➖➖➖➖

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

📩فیس بک:👇

https://m.facebook.com/suffah1/

====================

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

📮ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک👇

https://twitter.com/SUFFAHPK

===================

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

===================

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں