حیات“دعائے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”

”حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ“”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم“کے وصال کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم“کی طبیعت بہتر محسوس کرتے ہوئے”حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی اجازت سے”مقام سخ” جہاں انکی”زوجہء محترمہ”حضرت خارجہ رضی اللّٰہ عنہا”رہائش پذیر تھیں ان کے پاس تشریف لے گئے تھے- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے وصال کی اطلاع ملنے پر واپس تشریف لائے تو مسجد کے دروازے پر ایک ہنگامہ برپا تھا-“آپ رضی اللّٰہ عنہ”کسی سے کچھ نہ بولے اور سیدھے”امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا” کے حجرہ میں داخل ہوئےاور اپنے “محبوب آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے نورانی چہرے سے چادر ہٹا کر “پیشانیء مبارک”کو بوسہ دیا اور رو کر کہا”میرے ماں باپ”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر فدا ہوں ٫اللہ کی قسم!آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” پر دو موتیں جمع نہیں ہونگی- وہ موت جو”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے لئے مقدر تھی اس کا مزہ چکھ چکے-٫اس کے بعد “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”پر کبھی موت نہیں آئے گی-

پھر باہر تشریف لائے-وہاں “حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” تلوار لہرا لہرا کر “رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے”انتقال فرمانے” سے انکار کر رہے تھے- آپ رضی اللّٰہ عنہ”نے یہ حال دیکھا تو فرمایا”عمر”بیٹھ جاؤ لیکن انہوں نے نہ سنا تو”آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے دوسری طرف کھڑے ہو کر “مختصر اور بلیغ خطبہ دیا”آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا-

“اگر لوگ” محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کی پرستش کرتے تھے تو بیشک وہ مر گئےاور اگر”اللہ تعالیٰ”کی عبادت کرتے تھے تو وہ بیشک زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا٫ کبھی نہ مرے گا-“اللہ تعالیٰ”کا ارشاد ہے کہ”وما محمد الا رسول قد خلت من قبل الرسل”

“محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم” صرف ایک رسول ہیں٫جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں-

“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”بھی یہ آیات سن کر مطمئن ہو گئے-“حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ”فرماتے تھے کہ” اللہ کی قسم! ہم لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت پہلے نازل ہی نہیں ہوئی تھی-

“سقیفہ بنی ساعدہ”

“رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم” کے وصال کی خبر سنتے ہی منافقین کی سازش سے” مدینہء منورہ”میں فتنہء”سقیفہ بنی ساعدہ”اٹھ کھڑا ہوا-

“مہاجرین اور انصار” میں خلافت کے لئے بحثیں چھڑ گئیں-معاملہ اتنا گھمبیر ہو گیا کہ”اگر “شیخین رضی اللّٰہ عنہما”کوبر وقت اطلاع نہ ہو جاتی تو”مہاجرین اور انصار” جو باہمی اخوت ومحبت سے رہتے تھے “باہم دست و گریباں” ہو جاتے- لیکن اللہ تعالیٰ” نے اپنے”فضل وکرم” سے اس خونی جنگ کو دوبارہ “توحید کی روشنی”سے منور کرنا تھا اس لئے “اس نے”حضرت ابو بکر”اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنھما” کے جیسے” مہرو ماہ”پیدا کر دیے جنہوں نے اپنی عقل اور سیاست کی روشنی سے افق اسلام کی ظلمت اور تاریکیوں کو کافور کر دیا-“اور انصار”کے ساتھ بحث و مباحثہ”کے بعد”حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ”نے”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور اس طرح ان کے بعد سب لوگوں نے بھی “بخوشی” بیعت کی-اس طرح” خلیفہء بلا فصل”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”مسند خلافت پر متمکن ہوئے-“حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ” کی خلافت کہنے کو سوا دو برس رہی لیکن ان کے عہد میں جس قدر بڑے کام انجام پائے اور جن کی وجہ سے”دین اسلام” آج بھی زندہ و پائندہ ہے ان سب میں”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”پیش پیش رہے-

“حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنے مرض الموت میں “صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”کو بلا کر جانشینی کے متعلق مشورہ کیا اور”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” کا نام پیش کیا- “حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا”میرے خیال میں”عمر “کا باطن ظاہر سے اچھا ہے-“حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ” نے کہا” عمر” کے اہل ہونے میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے لیکن وہ کسی قدر متشدد ہیں-“ایک اور “صحابیِ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے تو یہاں تک کہا کہ”آپ رضی اللّٰہ عنہ”عمر رضی اللّٰہ عنہ”کے تشدد سے واقف ہونے کے باوجود ان کو جانشین کرتے ہیں٫ ذرا سوچ لیجئے”آپ رضی اللّٰہ عنہ”اللہ تعالیٰ کے ہاں جا رہے ہیں وہاں کیا جواب دینگے؟

“صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ”نے فرمایا” میں عرض کرونگا کہ”یا اللہ! تیرے بندوں میں سے اس کو منتخب کیا ہےجو ان میں سب سے اچھا ہے-“

”فتوحات پر اجمالی نظر“

“حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنے”10″سالہ “عہد خلافت” میں “فتوحات عراق وشام””قادسیہ کی فیصلہ کن جنگ”یرموک کی جنگ”بیت المقدس” کی فتح”اور”فتوحات مصر و فلسطین”کے ذریعے ان “عظیم الشان حکومتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا- کیا تاریخ ایسی کوئ مثال پیش کر سکتی ہے کہ چند صحرا نشینوں نے اس قدر “قلیل مدت”میں ایسا “عظیم الشان” انقلاب برپا کر دیا ہو-

“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”کی ان فتوحات میں ایک واقعہ بھی ظلم وزیادتی کا نہیں ملتا- فوج کو خاص ہدایت تھی کہ”بچوں٫بوڑھوں اور عورتوں سے مطلقاً تعرض نہ کیا جائے- انسانی قتل عام تو ایک طرف” ہرے بھرے درختوں تک کو کاٹنے کی اجازت نہ تھی-

مسلمان حکام”مفتوحہ اقوام” کے ساتھ ایسا عدل وانصاف کرتے تھےاور اس طرح اخلاق سے پیش آتے تھے کہ تمام رعایا انکی گرویدہ ہوجاتی-

“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”کے دور خلافت میں لوگوں کو”حکام” پر نکتہ چینی کرنے کی اتنی عام آزادی تھی کہ “معمولی سے معمولی آدمی کو”خلیفہء وقت”پر اعتراض کرنے میں کوئ باک نہیں ہوتا تھا –

ایک موقع پر ایک شخص نے کئ بار” حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”کو مخاطب کرکے کہا”اتق اللہ یا عمر” “اے عمر”اللہ سے ڈر” حاضرین میں سے کسی نے روکنا چاہا ت”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” نے فرمایا “نہیں اسے کہنے دو٫ اگر یہ لوگ نہ روکیں گے تو یہ سب بے مصرف ہیں اور اگر ہم نہ مانیں تو ہم-

“ایک دفعہ” حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” مہر کم مقدار میں رکھنے کے متعلق تقریر میں فرما رہے تھے-ایک عورت نے اثنائے تقریر ٹوک دیا اور کہا” اتق اللہ یا عمر” اللہ تعالیٰ سے ڈر اے عمر!-اس عورت کا اعتراض صحیح تھا- حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے اعتراف کے طور پر کہا کہ ایک عورت بھی “عمر”سے زیادہ جانتی ہے-

”احتساب“

“خلیفہء وقت”کا سب سے بڑا فرض حکام کی نگرانی اور قوم کے”اخلاق و عادات کی حفاظت ہے- “حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ” اس فریضہ کو نہایت اہتمام کے ساتھ انجام دیتے تھے-وہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ “ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا٫باریک کپڑے نہ پہنے گا-چھنا ہو آٹا نہ کھائے گا٫ دروازے پر دربان نہ رکھے گا اور اہل حاجت کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا-اسی کے کے ساتھ اس کے مال و اسباب کی فہرست تیار کروا کے محفوظ رکھتے تھے- اور جب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافے کا علم ہوتا تو جائزہ لے کر آدھا مال ہٹا کر بیت المال میں جمع کروا دیتے-

“موسم حج “میں اعلان عام تھا کہ جس عامل سے کوئ شکایت ہو تو وہ “بار گاہ خلافت” میں پیش کرے- چنانچہ ذرا ذرا سی شکایات پیش ہوتیں اور تحقیقات کے بعد اس کا تدارک کیا جاتاتھا-

”حکام“ کے علاؤہ “عام مسلمانوں”کی اخلاقی اور مذہبی نگرانی کا خاص اہتمام تھا-

”فوجی انتظامات“

”اسلام جب رومن ایمپائر سے بھی زیادہ وسیع سلطنت کا مالک ہو گیا اور”قیصر و کسریٰ”کے “عظیم الشان” ممالک اس کا ورثہ بن گئے تو اس کو ایک منتظم اورفوجی انتظامات کی ضرورت محسوس ہوئ- “15”ھ میں”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے اس طرف توجہ کی اور تمام ممالک کو فوجی بنانا چاہا٫لیکن ابتداء ہی میں ایسی تعلیم ممکن نہ تھی- اس لئے پہلے”مہاجرین وانصار” سے آغاز کیا اور مخرمہ بن نوفل٫جبیر بن معطم اور عقیل بن ابی طالب”رضوان اللہ علیہم اجمعین”کو یہ خدمت سپرد کی کہ وہ”مہاجرین وانصار”کا ایک رجسٹر تیار کریں جس میں ہر شخص کا نام و نسب تفصیل سے درج ہو- اس ہدایت کے مطابق رجسٹر تیار ہوا اور حسب حیثیت تنخواہیں اور ان کے بیوی بچوں کے گزارے کے لئے وظائف مقرر ہوئے- “مہاجرین وانصار کی بیویوں کی تنخواہ 200سے400درہم تک سالانہ اور”اہل بدر کی اولاد کی تنخواہ “2000”سالانہ مقرر ہوئ- یہاں یہ امر بھی قابل تحسین ہے کہ جن لوگوں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں اتنی ہی ان کے”غلاموں”کی بھی مقرر ہوئیں- اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ’’فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ” نے مساوات کا کیسا سبق سکھایا تھا-

کچھ دنوں بعد اس نظام کو”تمام قبائل عرب” میں عام کر دیا گیا”ہر ایک “عربی النسل افراد” کی”علی قدر مراتب” تنخواہ مقرر ہوئیں یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کے لئے بھی وظائف جاری کئے-

نوٹ: امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے”مناقب و فضائل” میں دفتر کے دفتر بھر سکتے ہیں مگر وقت کی تنگی کی وجہ سے فی الحال اسی پر اکتفاء کرتی ہوں-

“شہادتِ”حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ”

“آپ رضی اللّٰہ عنہ ہمیشہ دعا کرتے تھے”اللھمہ ارزقنی شھادہ فی سبیلک٫ واجعل موتی ببلد رسولک”

“یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شھادت نصیب فرما اور مجھے اپنے”رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے شھر میں موت دے آمین” اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا-

“مغیرہ بن شیبہ”کے ایک پارسی غلام”فیروز ابو لولو نے اپنے آقا کے اس پر بھاری محصول مقرر کرنے کی شکایت کی-“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے تحقیق کی تو شکایت بےجا نکلی اس لئے”آپ رضی اللّٰہ عنہ” نے توجہ نہ کی- اس پر وہ “آپ رضی اللّٰہ عنہ”سے بیجا انتقام پر اتر آیا-اور”27 یا 28 “ذی الحجہ 23ھ”کی صبح کو”نماز فجر” پڑھاتے ہوئے “آپ رضی اللّٰہ عنہ”پر خنجر کے متواتر” چھ وار کر کے شدید زخمی کر دیا-“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”زخموں کی تاب نہ لا کر گر پڑے اور”حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ” نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی-

یہ ایسا کاری زخم تھا کہ اس سے”آپ رضی اللّٰہ عنہ” جانبر نہ ہو سکے-

ایسے کٹھن وقت پر لوگوں کے اصرار پر “6” اشخاص کو”منصب خلافت” پر نامزد کیا- ان کے نام یہ ہیں-“حضرت علی٫ حضرت عثمان٫حضرت زبیر٫حضرت طلحہ ٫حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین- اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بیٹے”حضرت عبداللہ” کو بلایا اور “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہ”کے پاس بھیجا “کہ عمر اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونا چاہتا ہے اگر آپ رضی اللّٰہ عنہا” کی اجازت ہو تو-

“امی عائشہ رضی اللّٰہ عنہا”سن کر رونے لگیں اور کہا” میں نے یہ جگہ اپنے لئے رکھی تھی لیکن میں “عمررضی اللہ عنہ” کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں-

“حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ”نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ہو سکتا ہے “میرے امیر المومنین ہونے کا لحاظ کیا ہو اس لئے میرا جنازہ تیار کر کے”روضٔہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”پر باہر ہی رکھنا پھر اندر جا کر دوبارہ “امی عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا”سے اجازت لینا اگر وہ بخوشی راضی ہوں تو مجھے ان دونوں ساتھیوں کے قدموں میں دفنا دینا ورنہ”مسلمانوں کے قبرستان”جنت البقیع” میں دفن کر دینا- “اللہ رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را “کیسے بے غرض لوگ تھے-

اس کے بعد “مہاجرین وانصار” کے اور عربوں اور اہل زمہ” کے حقوق کی طرف توجہ دلائی اور اپنے صاحبزادے “حضرت عبداللہ”کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہو اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہوسکے تو بہتر ہے-ورنہ”خاندان عدی” سے درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ کو سکے تو”قریش” سے٫لیکن قریش کے علاؤہ کسی اور کو تکلیف نہ دینا-

“غرض اسلامی تاریخ” کے “سب سے بڑےہیرو”دعائے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم”امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ”ہر قسم کی وصیتوں کے بعد تین دن موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہ کر “یکم محرم الحرام “24” ھ” ھفتہ کے دن”, دنیائے فانی سے “دار الاخرت” کی طرف واصل بحق ہوئے اور اپنے”محبوب آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کے قدموں میں ہمیشہ کے لئے میٹھی نیند سو گئے- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون-

ہزاروں کروڑوں” درود و سلام ہو ان “تینوں رفیقوں” پر جو زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی تا قیامت ساتھ رہیں گے-( ختم شد)

حوالہ: تاریخ کے ساتھ ساتھ اور خلفائے راشدین-

مرسلہ:خولہ بنت سلیمان

“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین”

اپنا تبصرہ بھیجیں