حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ:تیسری قسط

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ:تیسری قسط

تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

حضرت عبدالرحمن بن عوف کا تین قسم کے افراد کے ساتھ خصوصی مالی تعاون

اُس معاشرے میں بالخصوص تین قسم کے افرادایسے تھے جن پرعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بہت زیادہ دریادلی کے ساتھ اپنامال ودولت خرچ کیاکرتے تھے:

پہلی قسم: تمام ’’بدری‘‘ حضرات،یعنی وہ جلیل القدرشخصیات جنہیں حق وباطل کے درمیان لڑی جانے والی اولین اوراہم ترین جنگ یعنی’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کاشرف نصیب ہوا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ پابندی کے ساتھ ان کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیجتے رہتے تھے۔

دوسری قسم: قبیلۂ قریش کے خاندان’’بنوزہرہ‘‘سے تعلق رکھنے والے افراد(کیونکہ خودعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کاتعلق بھی اسی خاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا)۔

تیسری قسم : اُمہات المؤمنین ، یعنی رسول اللہﷺکی ازواجِ مطہرات۔رسول اللہﷺکی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تمام امہات المؤمنین کی ضروریاتِ زندگی کابہت زیادہ خیال رکھاکرتے تھے،ہمیشہ ان سب کی خدمت میں اشیائے خوردونوش ودیگراشیائے ضرورت ،نیزقیمتی ہدایاوتحائف ارسال کرتے رہناان کاروزمرہ کامعمول تھا،بالخصوص ہرسال حجِ بیت اللہ کے موقع پریہ ان کے ہمراہ جاتے ، دورانِ سفرہرطرح سے ان کی ضروریات کاخیال رکھتے،خوب خدمت بجالاتے،اُن کیلئے عمدہ ترین سواریوں کاانتظام ،نیزہرطرح ان کی راحت وآرام اورقیام وطعام کابندوبست خوداپنی ذاتی نگرانی میں کیاکرتے۔

ظاہرہے کہ امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کی خدمت اوران کی خبرگیری بذاتِ خودبہت بڑی سعادت تھی…مزیدیہ کہ اس سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ایک اوربڑی سعادت مندی یہ بھی ظاہرہوتی ہے کہ امہات المؤمنین کوان پرکس قدراعتمادتھااورمکمل بھروسہ تھا۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں اکثریہ فکرلاحق رہتی کہ اللہ نے جومجھے اس قدرمال ودولت اورخوشحالی وفراوانی سے نوازرکھاہے،کہیں ایسی بات تونہیں کہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس اسی عارضی وفانی دنیامیں ہی دے دیاہو،اورآخرت کی ابدی ودائمی زندگی میں میرے لئے فقط محرومی ہو،یہ بات سوچ کربہت زیادہ پریشان ہوجاتے،اکثررقت طاری ہوجاتی،اورتب اللہ کی راہ میں مزیدصدقہ وخیرات کرتے،’’انفاق فی سبیل اللہ ‘‘کایہ سلسلہ آخری ایام میں بہت زیادہ بڑھ گیاتھا۔

سن ۳۲ہجری میں یہ واقعہ بھی پیش آیاکہ جب کُل تین سوتیرہ’’بدری ‘‘ حضرات میں سے ایک سو بقیدِحیات تھے،تب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان ایک سوبدری حضرات میں سے ہرایک کی خدمت میں نقدچارسودیناربطورِ ہدیہ ارسال کئے جوکہ یقینابہت خطیررقم تھی۔

انہی دنوں ایک بارملکِ شام سے ان کاتجارتی قافلہ مدینہ پہنچا،یہ قافلہ سامانِ تجارت سے لدے ہوئے سات سواونٹوں پرمشتمل تھا،بڑی تعدادمیں خُدام وملازمین بھی ہمراہ تھے،مال واسباب سے لدے ہوئے یہ سات سواونٹ اوران کے چلانے اورہنکانے والے،ودیگرملازمین جب مدینہ پہنچے اوروہاں مختلف گلیوں اورمحلوں سے گذرتے ہوئے جب یہ سب آگے بڑھ رہے تھے،توان کی نقل وحرکت اورشوروغل کی وجہ سے عجب سماں بندھ گیا،ہرکوئی گھرسے نکل کرحیرت سے اس قافلے کوتکنے لگا، ایسے میں کسی نے اس قافلے کی جانب دیکھتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جس سے یہ مفہوم سمجھ میں آتاتھاکہ ’’عبدالرحمن بن عوف توبس اب دنیاداری میں ہی کھوکررہ گئے ہیں۔‘‘

جلدہی یہ بات کسی طرح عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئی،ابھی وہ قافلہ مدینہ شہرمیں اپنی آخری منزل تک پہنچابھی نہیں تھا،مال واسباب ان اونٹوں سے اتارنے کی ابھی نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ کسی تاخیرکے بغیرفوراًہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے ،اورنہایت سرعت وبے چینی کی کیفیت میں اس قافلے کے پاس پہنچے،اوروہاں موجودتمام افرادکومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے: ’’لوگو!تم سب گواہ رہناکہ میں اپنے یہ تمام(سات سو) اونٹ بمع سامان ، اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں…‘‘

شب وروزاورماہ وسال کایہ سفرجاری رہا، سن ۳۲ہجری میں ایک دن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھاہواتھا،افطارکاوقت جب قریب آیا، خادم نے افطارکاسامان اورکھاناوغیرہ پیش کیا،اس کھانے پرجب نظرپڑی توانتہائی اداس ہوگئے،مزاج پررقت طاری ہوگئی،دسترخوان پرکچھ مہمان بھی موجودتھے،انہوں نے جب ان کی یہ اچانک افسردگی وپریشانی دیکھی تووجہ دریافت کی۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسوچھلکنے لگےاور گلوگیرآوازمیں یوں گویاہوئے:’’مصعب بن عمیرتومجھ سے بہت اچھے تھے،اللہ کے ہاں ان کامقام ومرتبہ مجھ سے زیادہ تھا،لیکن اس کے باوجودکیفیت یہ ہوئی کہ آج سے تقریباً تیس سال قبل ’’اُحد‘‘کے میدان میں رسول اللہﷺکی معیت میں جب ہم انہیں کفن پہنارہے تھے، تب کیفیت یہ تھی کہ ہم ان کاسرڈھانپتے توپاؤں ظاہرہوجاتے،پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے توسراورچہرہ ظاہرہوجاتا،آخراس ناکام کوشش کے بعدبس اسی طرح ، اس ادھورے اورپھٹے پرانے سے کفن میں ہی ہم نے انہیں سپردِخاک کردیا،حالانکہ وہ تومجھ سے بہت اچھے تھے،مگرپھربھی اس حالت میں وہ دنیاسے رخصت ہوئے۔

اتناکہنے کے بعدعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خوب پھوٹ پھوٹ کررونے لگے،اورپھرتھوڑی دیربعدجب طبیعت کچھ سنبھلی تویوں بولے’’مصعب بن عمیرکاتویہ حال جبکہ میرے پاس یہ اس قدرمال ودولت کی فراوانی،کہیں ایسانہ ہوکہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس یہیں اس فانی وعارضی دنیامیں ہی دے دیاہو،اورآخرت میں میرے لئے اب کچھ نہ ہو،نہ جانے اللہ کے پاس میرااب کیابنے گا؟

یہ سوچ تھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی،اوریہ جذبہ تھا،جس کی وجہ سے مال ودولت کی فراوانی وخوشحالی اورہرقسم کے دنیاوی مال واسباب کی بہتات کے باوجودان کے مزاج میں کسی خرابی کے بجائےاپنے اللہ کے ساتھ تعلق مزیدمضبوط ومستحکم کرنے کی لگن،اللہ کے سامنے جوابدہی کاہمہ وقت احساس،اللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی مدد واعانت کاجذبہ ہرگذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتاہی چلاگیا۔

اسی کیفیت میں آتے جاتے موسموں کایہ سفرجاری رہا،آخرسن۳۲ہجری میں ۷۵سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ان کاانتقال ہوگیا،خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، ودیگرمتعددکبارِصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مل کرتجہیزوتکفین کے فرائض انجام دئیے، نمازِجنازہ ان کی وصیت کے مطابق خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اورپھرمدینہ منورہ کے قبرستان’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کردیاگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں