حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ :پہلی قسط

حضرت ابوعبیدہ عامربن الجراحؓ :پہلی قسط

تحریر :حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

رسول اللہﷺکے جلیل القدرصحابی حضرت ابوعبیدہؓ بھی ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔آپؓ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے ایک معززخاندان سے تھا،ان کی شخصیت قدرتی وفطری طور پرانتہائی پرکشش تھی، چہرہ روشن ، بدن دبلاپتلا ،اورقددرازتھا،لوگ انہیں اس دبلی پتلی اورلمبی تلوارسے مشابہ قراردیاکرتے تھے جواپنے دبلے پن کے باوجوداپنی تیزدھاراوربھرپور کاٹ کی وجہ سے دشمنوں کیلئے پیغامِ اجل ہواکرتی ہے۔

مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت ابوعبیدہؓ کی حضرت ابوبکرصدیقؓ کے ساتھ خاص دوستی اورقربت تھی ،دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،چنانچہ ظہورِاسلام کے بعدحضرت ابوبکرصدیقؓ کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت ابوعبیدہؓ مشرف باسلام ہوئے تھے۔

حضرت ابوعبیدہؓ بھی بھلائی میں سب لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ، اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔

قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ، مصائب وآلام ،اورآزمائشوں کادورشروع ہوا،دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا، تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہﷺکے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے۔

مکی دورہویاہجرتِ حبشہ اورپھرہجرتِ مدینہ کے بعدکادور کفارِمکہ کی طرف سے اہلِ ایمان کے خلاف سازشوں اوراذیت رسانیوں کے سلسلے مختلف شکلوں میں بدستور جاری رہے،ایسے میں حضرت ابوعبیدہؓ راہِ حق میں ہرقدم پراورہرموڑپر ان تمام ترمصائب وآلام کابڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے،جسمانی، مالی ، نفسیاتی،غرضیکہ ہرقسم کی تکالیف اورآزمائشوں کانہایت جرأ ت وبہادری کے ساتھ سامناکرتے رہے۔آخرایک ایسادن بھی آیا جب معاملہ حدسے گذرگیا،ایسی آزمائش سامنے آکھڑی ہوئی کہ جس کاتصوربھی جان لیواہے۔

ہجرت کے دوسرے سال ’’بدر‘‘کے میدان میں جب حضرت ابوعبیدہؓ دشمنوں پرانتہائی بہادری ودلیری کے ساتھ جھپٹ رہے تھے،کیفیت یہ تھی کہ وہ جس طرف لپکتے اُدھردشمنوں کی صفوں کی صفیں اُلٹ جاتیں،یوں وہ مسلسل کبھی بجلی بن کردشمن پرگررہے تھے،اورکبھی قہربن کرٹوٹ رہے تھے،ایسے میں وہاں ایک ایساشخص تھاجوبارباران کے سامنے آجاتا،گویااس نے بس انہی پرنظررکھی ہوئی تھی،یہ اس سے بچتے،وہ پھرسامنے آجاتا،یہ کتراتے مگروہ پھرراستہ روک کرکھڑاہوجاتا،انہیں للکارتاکہ ’’آؤمیراسامناکرو،ذرا میرےساتھ قوت آزمائی کرکے دیکھو۔‘‘

آخرایک جگہ اس شخص نے ابوعبیدہؓ کاراستہ روک لیااورباربارللکارا،اب ابوعبیدہ ؓکے پاس کوئی چارہ نہیں تھا،اس نے اپنی تلواربلندکی،ابوعبیدہ ؓنے بھی بلندکی، دونوں تلواریں پوری قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرائیں،اورپھرظاہرہے کہ نتیجہ تووہی برآمدہوناتھا،یعنی ایک غالب اوردوسرامغلوب،چنانچہ ابوعبیدہؓ فاتح وغالب رہے، یوں وہ شخص ابوعبیدہؓ کے ہاتھوں ’’بدر‘‘کے میدان میں ماراگیا۔حضرت ابوعبیدہؓ نے اس موقع پرکتنی کوشش کی تھی اس شخص سے کترانے کی،مگراس نے تومجبورہی کردیاتھا،وہ شخص کون تھا؟ابوعبیدہؓ کیلئے یہ کتنی بڑی آزمائش تھی،ہوسکتا ہے کہ آپ یقین نہ کریں کیونکہ یہ شخص ابوعبیدہؓ کاباپ تھا جو کہ مشرک تھا۔دراصل ابوعبیدہؓ نے اپنے باپ کوقتل نہیں کیا،بلکہ ’’باطل‘‘کوقتل کیا،جواُن کے مشرک باپ کے روپ میں ان کے مقابل آکھڑاہواتھا،اورباربارانہیں للکاررہاتھا۔

سن دوہجری میں پیش آنے والے اس ’’غزوۂ بدر‘‘کے فوری بعداگلے ہی سال جب مشرکینِ مکہ اپنے لاؤ لشکرسمیت دوبارہ چلے آئے، جس کے نتیجے میں حق وباطل کے درمیان دوسرا معرکہ یعنی’’غزوۂ اُحد‘‘پیش آیا،اس موقع پرمسلمان جب اپنی ہی ایک اجتہادی غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،مسلمانوں کی یقینی فتح اب شکست میں تبدیل ہوگئی…جس کی وجہ سے مسلمانوں کوبہت زیادہ پریشانی وافراتفری کاسامنا کرناپڑا،اپنی صفوں میں وہ نظم وضبط برقرارنہ رکھ سکے،کسی کوکسی کی خبرنہ رہی، باہم رابطہ براقرارنہ رہ سکا،اوروہ سب ایک دوسرے سے بے خبراِدھراُدھر منتشر اور سراسیمہ ہوگئے۔

اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے اپنی تمام توجہ اس جانب مرکوزکردی جہاں رسول اللہﷺموجودتھے،اس نازک ترین موقع پرچندمٹھی بھرجاں نثارجوآپﷺ کے گرددیوانہ وارتیروں اورنیزوں کی بوچھاڑکواپنے ہاتھوں اورسینوں پرروکتے ہوئےآپﷺ کی حفاظت کافریضہ انجام دے رہے تھے،انہی جاں نثاروں اور سرفروشوں میں حضرت ابوعبیدہؓ بھی شامل تھے۔

جنگ کے اختتام پرکیفیت یہ تھی کہ رسول اللہﷺکی جبینِ اقدس پرگہرازخم آیاتھاجس سے خون بہہ رہاتھا،چنددندان مبارک شہیدہوگئے تھے،رُخِ انورپرکسی بدبخت مشرک کی تلوارکی ایسی زوردارضرب لگی تھی کہ جس کی وجہ سے زرہ کی چندکڑیاں آپﷺ کے رُخسارمبارک میں پیوست ہوگئی تھی اورکافی اندرگہرائی تک چلی گئی تھیں۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے زرہ کی یہ کڑیاں آپﷺ کے رخسارمبارک سے نکالنے کی بہت کوشش کی،لیکن کامیابی نہ ہوسکی،آخرانہیں مخاطب کرتے ہوئے ابوعبیدہؓ فرمانے لگے: أُقسِمُ عَلَیکَ أن تَترُکَ لِي ذَلِکَ ’’اے ابوبکر! میں آپ کواللہ کی قسم دے کرکہتاہوں کہ آپ یہ کام مجھ پرچھوڑدیجئے۔‘‘چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ اسی کوشش میں مشغول ہوگئے،لیکن کوئی کامیابی نہ ہوسکی، آخرانہوں نے ان کڑیوں کواپنے دانتوں سے جکڑکرپوری قوت سے کھینچا،جس کے نتیجے میں وہ کڑیاںتورسول اللہﷺکے رُخسارمبارک سے باہرآگئیں،البتہ ساتھ ہی ابوعبیدہؓ کے سامنے کے دونوں دانت بھی ٹوٹ کرباہرآگئے۔یوں حضرت ابوعبیدہؓ ہمیشہ ہی رسول اللہﷺ کی خدمت وپاسبانی کامقدس ترین فریضہ دل وجان سے سرانجام دیتے رہے۔نہایت جوش وجذبے ، اوراخلاص ولگن کے ساتھ آپﷺ کی مجلس میں حاضری ،استفادہ اورکسبِ فیض میں ہمیشہ ہی مشغول ومنہمک رہے۔

’’اَمین الُامّۃ‘‘

رسول اللہﷺنے ایک موقع پریہ یادگارارشادفرمایا: اِنّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِیناً،وَاِنّ أَمِینَنَا أیّتُھَا الأُمَّۃُ أَبُو عَبَیدَۃُ بنُ الجَرَّاح ۔ (بخاری ))’’ہرامت کاایک ’’امین‘‘ہواکرتاہے،!ہمارے ’’امین‘‘ابوعبیدہ بن الجراح ہیں‘‘۔

مقصدیہ کہ ہرامت میں کوئی شخص بطورِخاص بہت بڑا’’امین‘‘ہواکرتاہے،اس تمام امتِ مسلمہ کے وہ خاص اوربہت بڑے ’’امین‘‘ابوعبیدہؓ ہیں۔

رسول اللہﷺ کے اس یادگارارشادسے یقیناحضرت ابوعبیدہ الجراحؓ کامقام ومرتبہ خوب واضح وثابت ہوجاتا ہے …

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ فرماتے ہیں کہ : جَائَ أَھلُ نَجرَانَ اِلَیٰ رَسُولِ اللّہِ ﷺ ، فَقَالُوا : یَا رَسُولَ اللّہ ! اِبعَثْ اِلَینَا رَجُلاً أَمِیناً ، فَقَالَ : لأَبعَثَنَّ اِلَیکُم رَجُلاً أَمِیناً حَقَّ أَمِین ، حَقَّ أَمِین … فَا ستَشْرَفَ أصحَابُہ، ، فَبَعثَ أَبَا عُبَیدَۃَ ۔(بخاری)’’ایک بارنجران والوں کاوفدرسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،اورعرض کیاکہ اے اللہ کے رسول!آپ ہمارے ہمراہ کسی ایسے شخص کوروانہ فرمائیں جو’’امین‘‘ہو،آپﷺ نے فرمایا: میں تمہاری طرف ایک ایسے شخص کوروانہ کروں گا جوواقعی اوربرحق’’امین‘‘ ہوگا، آپﷺ کایہ ارشادسن کر متعددصحابہ حسرت اورتمنا کرنے لگے کہ کاش آپﷺ اس کام کیلئے مجھے منتخب فرمائیں،کیونکہ آپﷺ نے پیشگی یہ خوشخبری سنادی تھی کہ میں اس مقصدکیلئے ایک ایسے شخص کومنتخب کروں گاجوواقعی ’’امین‘‘ہوگا،لہٰذایہ توخودآپﷺ کی طرف سے اُس شخص کے حق میں بہت بڑی گواہی اورخوشخبری تھی جسے منتخب کیاجاناتھا،چنانچہ آپﷺ نے اس کام کیلئے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ کومنتخب فرماتے ہوئے اس وفدکے ہمراہ روانگی کاحکم دیا۔

رسول اللہﷺکی حیاتِ طیبہ کے دوران دوردرازکے علاقوں میں مشرکین ومخالفین کے مختلف قبائل وقتاًفوقتاً سرکشی دکھایاکرتے تھے ،جس پران کی سرکوبی کی غرض سے آپﷺ فوجی مہمات روانہ کیاکرتے تھے،اُن دنوں متعددبارایساہواکہ آپﷺ نے اسلامی لشکرکاسپہ سالارحضرت ابوعبیدہؓ کومقررفرمایا،اوریوں ان کی سپہ سالاری میں لشکرمنزلِ مقصودکی جانب روانہ ہوا،حالانکہ اس لشکرمیں بڑے بڑے صحابۂ کرام ،حتیٰ کہ حضرت ابوبکراورحضرت عمررضی اللہ عنہماجیسی جلیل القدر شخصیات بھی موجودہواکرتی تھیں۔

ایسے ہی ایک یادگارموقع پرجب حضرت ابوعبیدہؓ کی زیرِقیادت لشکرمدینہ سے بہت دورمنزلِ مقصودکی جانب رواں دواں تھا،متعدداکابرصحابہ بھی ان کی زیرِقیادت پیش قدمی کررہے تھے،اس دوران لشکراپناراستہ بھٹک گیا،جس کی وجہ سے غیرمتوقع طورپرسخت پریشانی اورشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑا،خوراک کاذخیرہ کافی کم پڑگیا،اس نازک ترین صورتِ حال میں سپہ سالارکی حیثیت سے حضرت ابوعبیدہؓ نے خوراک کی تقسیم کاکام خودسنبھال لیا،آپؓ ہرسپاہی کوروزانہ صرف ایک کھجوربطورِخوراک دیاکرتے،نیزیہ کہ دوسروں کی طرح خودبھی روزانہ محض ایک کھجورپرہی اکتفاء کیاکرتے۔

(جاری ہے ۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں