حضرت سعیدبن زید رضی اللہ عنہ:پہلی قسط

حضرت سعیدبن زید رضی اللہ عنہ:پہلی قسط

تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

حضرت سعیدبن زید ؓ بھی’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہﷺنے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔آپؓ کاتعلق مکہ شہرمیں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوعدی‘‘سے تھا،حضرت عمربن خطاب ؓ کاتعلق بھی اسی خاندان سے تھا،لہٰذادونوں میں قرابت داری تھی ،حضرت سعیدکے والدزید،اورحضرت عمرؓ باہم چچازادبھائی تھے،حضرت سعیدؓکی اہلیہ فاطمہ بنت خطاب ؓ حضرت عمربن خطاب ؓ کی بہن تھیں۔

حضرت سعیدبن زید ؓ بھی بھلائی میں سب لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ،اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقون الأولون‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔

حضرت سعید ؓ کے والد حضرت زید کی تلاش حق کے لیے عظیم قربانی

حضرت سعیدکے والد زیدبن عمروبن نفیل مشرکینِ مکہ کی بت پرستی وگمراہی اوراخلاقی بے راہ روی سے سے بہت زیادہ دلبرداشتہ وبیزارتھے ،نیزرسول اللہ ﷺکی بعثت سے قبل ہمیشہ تلاشِ حق میں سرگرداں رہاکرتے،اسی تلاشِ حق میں ہی انہوں نے متعددبارملکِ شام کاسفرکیا،وہاں راہبوں سے ملاقاتیں کرکے دینِ نصرانیت ،اورکبھی یہودیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے،لیکن مطمئن نہیں ہوسکے۔

اُس دورمیں انتہائی رونگٹے کھڑے کردینے والی ایک برائی جوعرب معاشرے میں عام تھی ،وہ یہ کہ وہ لوگ عارکے ڈرسے اپنی نوزائیدہ بچیوں کوخوداپنے ہی ہاتھوں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔حضرت سعیدکے والدزیدنے یہ معمول بنارکھاتھا کہ جس کسی کے بارے میں انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ وہ اپنی بیٹی کوزندہ درگورکرنے والاہے، اس کے پاس پہنچ جاتے،اوراس سے وہ بیٹی ہمیشہ کیلئے اپنی کفالت میں لے لیتے ،اورخوداس کی پرورش کیاکرتے،یوں حضرت زیدکی زیرِکفالت بڑی تعدادمیں ایسی بچیاں پرورش پایاکرتی تھیں۔

مکہ شہرمیں اُن دنوں حضرت زیدکے بارے میں یہ بات مشہورتھی کہ عزیزواقارب اوردوستوں کے ساتھ میل جول اورملاقات کی غرض سے آمدورفت کے موقع پریہ کسی کے گھرمیں گوشت نہیں کھایاکرتے تھے،اوریوں کہاکرتے تھے کہ’’اللہ کانام پڑھے بغیرجوجانورذبح کیا گیا ہو ،اس کاگوشت کھاناحرام ہے،تم لوگ اللہ کے نام کی بجائے اپنے بتوں کے نام پرجانورقربان کیاکرتے ہو،لہٰذامیں تمہارے ان جانوروں کاگوشت نہیں کھاؤں گا‘‘۔

ایک روزمکہ میں کوئی بڑاعالی شان میلہ لگاہواتھا،بہت رش تھا،اوربڑی رونق تھی، بڑے بڑے مالداراورصاحبِ حیثیت افراداورخوشحال قسم کے لوگ وہاں موجودتھے ، جنہوں نے نفیس لباس زیب تن کررکھے تھے،سروں پرقیمتی پگڑیاں سجارکھی تھیں،نیز ان کی عورتیں بھی خوب زیورات سے آراستہ اورزرق برق لباس پہنے ہوئے بڑی تعدادمیں ان کے ہمراہ تھی،یوں یہ امیرکبیراورسردارقسم کے لوگ اپنی خواتین اوربچوں کے ہمراہ وہاں اِتراتے پھررہے تھے،مزیدیہ کہ ان کے ہمراہ بڑی تعدادمیں قیمتی جانوربھی موجودتھے ، جنہیں انہوں نے خوب سجارکھاتھا،ان کے گلوں میں ہاراورپاؤںمیں گھنگروڈال رکھے تھے۔

حضرت زیدہرسال ہی اس میلے کے موقع پراس قسم کے مناظردیکھاکرتے تھے،اس سال بھی حسبِ معمول یہی تمام مناظران کی آنکھوں کے سامنے موجودتھے،تب ان سے رہانہ گیا اورانہوں نے وہاں موجودان بڑے بڑے سردارانِ قریش کی موجودگی میں سب کومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیوں کہناشروع کیا:’’لوگو!تمہیں کیاہوگیاہے؟ان جانوروں کواللہ نے پیداکیاہے، اسی اللہ نے آسمان سے پانی برسایا توان جانوروں کواپنی پیاس بجھانا نصیب ہوا،اسی اللہ نے ہی زمین سے سبزہ اُگایا،جسے کھاکریہ جانوراپنی بھوک مٹانے کے قابل ہوسکے، پھریہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ تم ان جانوروں کو اللہ کے نام کے بجائے اپنے ان بتوں کے نام پرقربان کرتے ہو؟‘‘حضرت زیدکی یہ باتیں سن کروہ سردارانِ قریش سخت برہم ہوئے ،انہیں خوب برابھلاکہا،اورسخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا’’بہت ہوچکاآئندہ کبھی ایسی فضول باتیں نہ کرنا ورنہ انجام اچھانہیں ہوگا‘‘یوں ڈرادھمکاکر انہیں خاموش کردیاگیا۔

اُس ماحول سے بیزار حضرت زیدنے’’ تلاشِ حق‘‘ کی جستجوجاری رکھی،اسی سلسلے میں انہوں نے یہ فیصلہ کیاکہ اپنے اردگردایسے لوگوں کوتلاش کیاجائے جواس معاملے میں ان کے ہم خیال ہوں،تلاشِ بسیارکے بعدآخرانہیں مکہ میں تین افرادایسے ملے جوشرک وبت پرستی سے بیزاری کے سلسلے میں ان کے ہم خیال نکلے، وہ تین افرادیہ تھے،ورقہ بن نوفل ، عبداللہ بن جحش ، اورعثمان بن حارث،اورپھرکچھ عرصہ بعد رسول اللہﷺکی پھوبھی اُمیمہ بنت عبدالمطلب بھی ان میں شامل ہوگئیں۔

اس دوران حضرت زیدمسلسل تلاشِ حق کی خاطرجستجومیں مشغول ومنہمک رہے،نصرانیت اور یہودیت کی تعلیمات کے بارے میں انہوں نے بہت زیادہ غوروفکرکیا،لیکن ان کادل یہ گواہی دیتاتھاکہ بس ’’دینِ ابراہیم‘‘ہی اصل اوربرحق دین ہے۔

مکہ شہرمیں وہ رات دن اپنی آنکھوں سے بیت اللہ کانظارہ ومشاہدہ کیاکرتے تھے،اوریہ سوچ کرانتہائی افسردہ ہوجایاکرتے تھے کہ یہ بیت اللہ جس کے معمارحضرت ابراہیم علیہ السلام تھے،ان کاتعمیرکردہ یہ مبارک گھرہمارے اپنے ہی شہرمیں ہے ،ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ،مگرافسوس کہ وہ دینِ ابراہیم جس کی بنیاد’’توحید‘‘پرتھی،اس دینِ برحق کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نظرنہیں آتا،کوئی وسیلہ دکھائی نہیں دیتا، البتہ اسی کیفیت میں شرک وبت پرستی سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے وہ اپنی دانست کے مطابق اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کیا کرتے،لیکن یہ کہ دینِ ابراہیم کے مطابق اس ایک اللہ کی عبادت کااصل کیاطریقہ ہے؟ نیزاس دین کی مزیدکیاتفصیلات ہیں؟ اس بارے میں وہ مسلسل غوروفکرمیں گم رہاکرتے تھے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اپنا تبصرہ بھیجیں