حضرت شموئیل علیہ السلام

 حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کی وفات سے تقریباً 350 سال تک  بنی اسرائیل  کے خاندانوں ا ورقبیلوں   میں ” سردار  ”    حکومت  کرتے  اور “قاضی”  معاملات   کے فیصلے کرتے  جبکہ  بنی ان تمام امور کی نگرانی کرتا اور دعوت  وتبلیغ کرتا۔ا س عرصے میں بنی اسرائیل  کا کوئی  بادشاہ نہ تھا۔یہی وجہ  تھی کہ  چوتھی صدی  عیسوی کے آخر میں فلسطین  قوم نے  ان پر زبردست حملہ کیا اور شکست  دے کر  متبرک صندوق” تابوت  سکینہ ”  بھی چھین  کرلےگئے ۔

مصر وفلسطین  کے درمیان  بحر روم  آباد  عمالقہ قوم   میں سے جالوت  نامی  حکمران  نے بنی اسرائیل  کی آبادیوں  پر قبضہ  کرلیا بے شمار  لوگوں  کو مغلوب  کردیا اور ان  کے بیٹوں  کو قیدی بنالیا  ۔ یہ وہ نا زک دور تھا  جب  بنی اسرائیل  میں کوئی نبی ورسول   موجود نہ تھا، نہ ہی کوئی سردار،  خاندان نبوت  میں صرف ایک  حاملہ عورت   باقی  رہ گئی تھی  اس عورت کے ہاں  ایک لڑکا پیدا  ہوا۔ جس کا نام شموئیل رکھا۔عبرانی  زبان میں اس  کے معنی  اسماعیل کے ہیں  یعنی  ” اللہ نے  میری دعاسن لی ”  

آپ ؑ کی تربیت کی ذمہ داری  بنی اسرائیل کے ایک بزرگ  نے  اپنے ذمہ لی۔  شموئیل  نے تورات  حفظ  کی اور دینی  تعلیم حاصل کی جب جوان  ہوئے تو بنی اسرائیل  میں سب سے ممتاز نظر آنے لگے ۔ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السلام  ان کے پا س آئے  اور فرمایا : اللہ نے آپ کو آپ کی قوم کی طرف  پیغمبر بنا کر بھیجا  ہے۔ ( قصص القرآن  )

شمویل  بن بالی  بن علقمہ  بن  یرخام بن الیہوبن  تہوین  بن صوف  بن علقمہ  بن مباحث  بن عموصا بن عزدیا،

مقاتل ؒ  فرماتے ہیں :

 ” یہ حضرت  ہارون علیہ السلام  کے ورثاء میں  سے ہیں “

 ( ماخذ ۔ خاذن جلد 2 ، روح المعانی  جلد 2 ص 142 ۔ تاریخ ابن کثیر جلد 2ص 5

 بنی اسرائیل  کی  خواہش جہاد :َ

 أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ  ( سورۃ البقرہ)  246

 ترجمہ: کیا تمہیں موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے گروہ کے اس واقعے کا علم نہیں ہوا جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا تھا کہ ہمارا ایک بادشاہ مقرر کردیجیے تاکہ (اس کے جھنڈے تلے) ہم اللہ کے راستے میں جنگ کرسکیں

 بنی اسرائیل  طویل  عرصے  تک جنگ جدول میں مصروف رہے  ، عمالقہ   قوم کے ظلم جاری  رہے آخر  انہوں نے پیغمبر   سے درخواست  کی کہ ہمارے  لیے کوئی  بادشاہ مقرر  فرمادیجیے   تاکہ ہم اس کی قیادت  میں جنگ کریں  ۔

 پیغمبر  نے کہا : ممکن ہے کہ اگر تمہیں جہاد کا حکم دیاجائے  تو تم جہاد نہ کرو، وہ کہنے لگے  : بھلا ہم جہاد کیوں  نہ کریں گے  جبکہ   ہم اپنے وطن اور بال بچوں سے جدا کردیے گئےہیں ۔ پھر جب  ان پر جہاد فرض ہوا توسوائے  تھوڑے سے لوگوں کے باقی  سب  پھر  گئے  ۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف  ہے۔

 قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ  (246

۔ (١٦٥) نبی نے کہا : کیا تم لوگوں سے یہ بات کچھ بعید ہے کہ جب تم پر جنگ فرض کی جائے تو تم نہ لڑو ؟ انہوں نے کہا : بھلا ہمیں کیا ہوجائے گا جو ہم اللہ کے راستے میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور اپنے بچوں کے پاس سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ پھر ( ہوا یہی کہ) جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے تھوڑے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب پیٹھ پھیر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ 

 حضرت شموئیل  ؑ نے یہ بات  ان کے سابقہ  کردار  کے پیش  نظر کہی تھی  کہ تم جو مطالبہ  کررہے ہو میرا اندازہ  ہے کہ تم  اپنی بات پر قائم  نہیں رہوگے  ۔ چنانچہ   ایسا ہی ہوا ۔ جیسا کہ قرآن مجید  نے ذکر کیا  ہے ۔ نبی کی موجودگی  میں  بادشاہ  مقرر کرنے کا مطالبہ  بادشاہت کے  جواز کی دلیل ہے  کیونکہ اگر بادشاہت  جائز  ہی نہ ہوتی  تو اللہ  تعالیٰ  اس مطالبے  کو رد فرمادیتے  ۔

 وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا 

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ : اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ 

 حضرت طالوت کے لیے بادشاہت کا  فیصلہ  :۔

 طالوت بن کش  جن   کا ذکر  توریت  میں ساؤل  کے نام سے آیا ہے ، یہ بنی اسرائیل  کے پہلے  بادشاہ ہیں ۔

حضرت عکرمہ  ؒ اور سدی  ؒ فرماتے ہیں  : طالوت  سقا تھے ” یعنی پانی پلانے  والے، اس کے علاوہ بھی کئی قول ہیں ۔

 قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّـهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٤٧﴾  ( سورۃ البقرۃ )

 یہ بات بنی اسرائیل  نے طالوت  کے پیشے کو  دیکھتے ہوئے کہی  تھی  یا پھر طالوت   بنیامین کی اولادوں میں سے  تھے ۔

بنی اسرائیل  کی  نسل سے نہ تھے  یہ غڑیب اور عام فوجی تھے ۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّـهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّـهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ

 پیغؐبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے، اللہ  نے انہیں  منتخب  کیا  ہے اور اسے علمی وجسمانی برتری  بھی عطا فرمائی  ہے ۔

قیادت کے لیے مال سے زیادہ  عقل ، علم  اور جسمانی  قوت  کی ضرورت  ہے اور طالوت  ان میں ممتاز تھے۔

 بادشاہت کی نشانی  :ِ

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٤٨﴾

تابوت سکینہ:

 جب بنی اسرائیل  نے مطالبہ کیا کہ طالوت  کا تقرر اللہ کی طرف سے  ہے ۔ا س کے لیے کوئی  نشانی  دکھائیے ۔

 حضرت شموئیل ؑ  نے فرمایا  : ”  اگر تم اللہ کے فیصلے  کی تصدیق  چاہتے ہو تو وہ یہ ہے کہ تمہارا  متبرک صندوق جو  تمہارے  ہاتھوں چھن گیا تھا، جس میں توریت، حضرت موسیٰ ؑ  ، حضرت ہارون ؑ  کےتبرکات  محفوظ ہیں  ۔ وہ طالوت   کی بدولت   تمہارے پاس واپس آجائے گا ۔

 اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر  یہ تابوت  حضرت طالوت ؑ  کے دروازے  پر پہنچادیا۔ جسے  دیکھ کر  بنی اسرائیل  خوش ہوئے  اور ایسے طالوت  ؑ کی بادشاہی  کے  لیے اللہ کی طرف سے نشانی سمجھا۔

فلسطینیوں نےا س تابوت کو اپنے  مندر میں لے جاکر  رکھ دیا جو ان کے سب سے  بڑے  بت “وجون ” کے نام پرتھا۔

توریت میں ہے کہ  جب سے تابوت  سکینہ لاکر رکھاگیا  فلسطینی روزانہ یہ منظر دیکھتے  کہ  بت ” وجون ”  کو منہ کے بل اوندھا  پڑا پاتے ۔ پھر دوبارہ  اپنی جگہ  قائم   کردیتے تو دوسرے دن  پھر گراپاتے ۔ پھر  شہر میں نئی  وباء پھیلنی شروع  ہوگئی جس سے وہ بہت پریشان   ہوئے ، نجومیوں   اور کاہنوں  کے مشورے  سےا نہوں نے  اس صندوق  کو بیل گاڑی   پر رکھ  کت بستی  کے باہر چھوڑ دیا ”  قرآن  کے مطابق  فرشتے  اس  بیل گاڑی  کو بنی اسرائیل   کی بستی   کی طرف لے گئے  ۔

 بنی اسرائیل کا امتحان  :۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ ( سورۃ البقرۃ آیت 249)

 جب طالوت ؑ کے   بادشاہ   ہونے کی نشانی  ظاہر ہوگئی  تو اب بنی اسرائیل  کے پاس انکار  کا کوئی  چارہ  باقی نہ رہا۔ حضرت طالوت  نے

بنی اسرائیل  کو جنگ   کے لیے نکلنے کا حکم دیا اب بنی اسرائیل کی آزمائش  کا ایک اور مرحلہ  پیش آیا  جب یہ لشکر جن  کی تعداد   تقریبا ً 80ہزار  کے قریب  تھی ایک  نہر پر پہنچا  تو طالوت  نے حکم  دیا  ،جوکوئی اس نہر سے  ایک چلو زیادہ  پانی   پیے گا وہ میرے ساتھ   غزوہ میں   شریک نہیں ہوسکتا ۔”  لیکن بہت  کم تھے    جنہوں نے  اس  بات پر عمل کیا۔ تین  سو تیرہ کے قریب  مومن تھے  جو نہر کے پاس ہوئے اور  باقی کہنے لگے  ہم طالوت  سے مقابلہ کرنے  کی ہمت نہیں  رکھتے  ۔ یہ  نہر اردن ہے  جس کا قرآن میں ذکر کیاگیا ۔

 طالوت وجالوت کی جنگ   :۔

  اب یہ لشکر  تعداد  میں  کم رہ گیا اور دشمنوں  کی کثیر تعداد  دیکھ کر احساس  کمتری کا شکار  ہونے لگے ۔ تو حضرت طالوت  نے ان کو سمجھایا  ۔

 سورۃ البقرۃ  میں ہے :

 قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّـهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٢٤٩

 اور دعا فرمائی ۔

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٥٠

اللہ تعالیٰ نے اپنے صابرین بندوں کی دعا قبول فرمائی  اور انہوں نے اللہ کےحکم  سے جالوت  اور اس  کے لشکر  کو شکست  دے دی ۔  یعنی کم  تعداد  کے باجود  اللہ کی طاقت  وقوت  کی مدد سے  ایک طاقتور لشکر  پر فتح پائی ۔ا للہ تعالیٰ  استقلال   رکھنے  والوں  کے ساتھ  ہے بعض اوقات  تھوڑی سی جماعت  کو بڑی جماعت  پہ فتح  ہوتی ہے ۔

حضرت داؤد علیہ السلام  کی بہادری  :ِ

فَهَزَمُوهُم بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ

 حضرت داؤد علیہ السلام  بھی اس لشکر  میں حضرت طالوت  کے سپاہی   تھے، آپ ؑ   نے بڑئ شجاعت ودلیری سے جالوت کو قتل کیا۔ جس کی وجہ سے پورا  لشکر  بکھر گیا اور ان  کے بہت سارے اموال  بطور غنیمت  حاصل کرلیے ۔

 سدی ؒ سے روایت ہے کہ : حضرت داؤد ؑ  اپنے تیرہ  بھائیوں میں سب سے چھوٹے  تھےآپ ؑ غلیل چلانے  کے  بہت ماہر تھے  بہت تیز  پتھر پھینکتے ۔ لڑائی  کے دوران  آپ ؑ نے جالوت کو للکارا  اور بے پناہ  شجاعت  سے لڑتے  رہے  پھر اپنی غلیل  سے تین پتھر  اس کی پیشانی  پر دے مارے جالوت  کا سر پھڑ گیاا ور وہ زمین  پر آگرا۔ حضرت  داؤد ؑ نے آگے بڑھ کر اس  کی گردن  کاٹ  دی ۔ جالوت کے قتل  ہوتے ہی  جنگ  فتح  میں تبدیل ہوگئی،  حضرت داؤد ؑ اپنی بہادری  وشجاعت  کی بناء پر  ممتاز وہر دل عزیز  ہوگئے ۔ بادشاہ  طالوت  نے اپنی بیٹی  کی شادی آپ ؑ سے کردی ا ور حکومت  میں بھی حصہ دار بنالیا۔ا ور پروردگار  عالم کی طرف  سے بھی نبوت   جیسی  زبردست  نعمت عطا ہوئی ۔  حضرت شموئیل ؑ کے بعد پیغمبر   بنے اور بادشاہ بھی ۔

 پھر ارشاد ہوتا ہے  :

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٢٥١﴾ ( سورۃ البقرۃ )

 اگر اللہ تعالیٰ یوں پست لوگوں  کی پستی  نہ بدلتا جس طرح  بنی اسرائیل  کو طالوت   جیسے مدبر بادشاہ  اور حضرت داؤد ؑ جیسے دلیر سپاہی  عطا فرماکر  حکومت  تبدیل نہ کرتا تو لوگ ہلاک  ہوجاتے ۔ جیسے ایک اور جگہ  آیت میں  آیاہے ۔

” یوں اگر ایک سے دوسرے  کو نہ ہٹایاجائے  تو عبادت  خانہ اور وہ مسجدیں  جن میں اللہ کا نام بہ کثرت   ذکر کیاجاتا ہے ۔ توڑی دی جائیں “۔

اپنا تبصرہ بھیجیں