حضرت طلحہ بن عبیداللہ التَیمی رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

حضرت طلحہ بن عبیداللہ التَیمی رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

تحریر:حضرت مولانا خلیق احمد مفتی صاحب

بے مثال سخاوت وفیاضی

حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کافی مالداراورخوشحال تھے،لہٰذاہمیشہ ہی دینِ اسلام کی سربلندی ،نیزاللہ کے بندوں کی خیروخوبی اورفلاح وبہبودکیلئے خوب دریادلی اورفیاضی کے ساتھ اپنامال خرچ کیاکرتے تھے،فقراء ومساکین کی خوب دل کھول کرمددواعانت کیاکرتے تھے۔ان کی اسی انسان دوستی ،جذبۂ ہمدردی ، انفاق فی سبیل اللہ ،اورسخاوت وفیاضی کی وجہ سے رسول اللہﷺنے انہیں ’’طلحۃ الخیر‘‘یعنی بہت زیادہ خیروالے طلحہ ،اور’’طلحہ الفیاض‘‘انتہائی سخی طلحہ”کے لقب سے یادفرمایاتھا۔

ایک بارانہیں ملکِ یمن میں اپنے کسی تجارتی سلسلے سے سات لاکھ درہم نقدموصول ہوئے ، اتنی بڑی رقم موصول ہونے کے بعدرات بھربے چین رہے،ان کی اہلیہ ام کلثوم نے اس پریشانی اوربے چینی کی وجہ دریافت کی،انہوں نے جواب دیاکہ’’میرے گھرمیں سات لاکھ درہم نقدرکھے ہوئے ہیں،مجھے یہ فکرکھائے جارہی ہے کہ کہیں یہ مال ودولت مجھے میرے اللہ سے دورنہ کردے‘‘۔ان کی یہ بات سن کراہلیہ نے کہا’’کیامیں آپ کوایک ترکیب بتاؤں ؟جس کی بدولت یہ مال آپ کواللہ سے دورکرنے کے بجائے مزیدقریب کردے گا؟‘‘حضرت طلحہؓ نے کہا:’’ضروربتائیں‘‘۔

اہلیہ بولی’’یہ تمام مال آپ فقراء ومساکین میں تقسیم کردیجئے‘‘اہلیہ محترمہ کی زبانی یہ بات سن کر آپؓ بیساختہ بولے’’عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے کس قدر عظیم مشورہ دیاہے‘‘۔ چنانچہ صبح کاسورج طلوع ہوتے ہی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے مدینہ شہرمیں موجودفقراء ومساکین میں اس رقم کی تقسیم کامبارک کام شروع کیا،حتیٰ کہ یہ تمام رقم (سات لاکھ درہم) اس ایک دن میں ہی ان فقراء میں تقسیم کردی گئی۔

وفات

سن۳۵؁ھ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے زمانۂ خلافت کے آخری ایام میں باغیوں نے جب شورش برپاکی،اوریہ معاملہ طول پکڑتاچلاگیا،اوران باغیوں کے ہاتھوں حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت کاانتہائی المناک واقعہ پیش آیا،جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ پہلی باراتحادواتفاق کے بجائے افتراق وانتشار کاشکارہوگئی،اس فتنے کے نتائج بڑے ہی بھیانک نکلے ، اوراس کے نقصانات بہت زیادہ دوررس ثابت ہوئے،رفتہ رفتہ اسی فتنے کے نتیجے میں ہی بہت سے نئے نئے فتنے سراٹھاتے چلے گئےجوکہ دراصل اسی فتنے یعنی حضرت عثمان بن عفانؓ کا قتلِ ناحق کاہی تسلسل تھا ،جوشکلیں بدل بدل کرمختلف اوقات میں ،مختلف مقامات پر ظاہر ہوتاچلاجارہاتھا۔

سن ۳۶ہجری میں بصرہ کے قریب دریائے فرات کے کنارے پیش آنے والے ایسے ہی ایک انتہائی افسوسناک واقعے یعنی ’’جنگِ جمل‘کے موقع پر، جنگ کے آغاز سے قبل حضرت علی بن ابی طالبؓ( جوکہ اس وقت مسلمانوں کے خلیفۂ چہارم کی حیثیت سے فرمانروااورامیرالمؤمنین تھے)کی نگاہ جب حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ پرپڑی تووہ ان کے قریب آئے اورسرگوشی کے اندازمیں ان سے کچھ بات چیت کی۔

حضرت علی بن ابی طالبؓ کی اس گفتگوسے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ انتہائی متأثرہوئے ،فوری طورپروہاں سے چلے جانے کافیصلہ کیا،اوراس تمام معاملے سے مکمل علیحدگی اختیارکرلینے کااعلان کیاکہ جوایک بڑی غلط فہمی کے نتیجے میں پیدا ہو گیا تھا ، خطرناک اورپیچیدہ قسم کی یہ غلط فہمیاں،نیزسازشوں کے یہ تمام تانے بانے دراصل خفیہ دشمنوں ،بدخواہوں ، اورسازشی وفسادی قسم کے عناصرکے بُنے ہوئے تھے،یہ سازشی لوگ تویقینایہی چاہتے تھے کہ فتنے کی یہ آگ اسی طرح بھڑکتی ہی رہے،اہلِ ایمان دوبارہ کبھی باہم متفق ومتحدنہ ہوسکیں،اورباہمی خونریزیوں کایہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔

لہٰذاان بدخواہوں نے جب یہ منظردیکھاکہ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ تواس معاملے سے کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے واپس جارہے ہیں،تب انہیں حضرت طلحہؓ کا یہ فیصلہ اوریہ اقدام پسندنہیں آیا،اورانہیں اپنی اس تمام سازش کی ناکامی کااندیشہ لاحق ہونے لگا ،چنانچہ کسی شخص نے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کوباقاعدہ نشانہ بناتے ہوئے ان پرتیر چلایا،جس کے نتیجے میں یہ زخمی ہوگئے ،اورخون بہت زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے موقع پرہی ان کاانتقال ہوگیا۔

ایک وقت وہ تھاجب غزوۂ اُحدکے موقع پررسول اللہﷺکی حفاظت کی خاطرحضرت طلحہؓ مشرکینِ مکہ کی طرف سے آنے والے تیروں کے سامنے کسی چٹان کی مانندڈٹے ہوئے تھے،رسول اللہ ﷺکی طرف آتے ہوئے ان تیروں کومسلسل اپنے ہاتھوں پرروک رہے تھے،لیکن اس سب کچھ کے باوجودوہ زندہ سلامت ہی رہے ،جبکہ یہاں فقط ایک تیرہی جان لیواثابت ہوا،کیونکہ اب پیغامِ اجل آچکاتھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں