حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ :تیسری قسط

’’فتنہ‘‘اورپھر’’شہادت‘‘

خلیفۂ سوم ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان ؓ کی انتہائی مظلومیت کی کیفیت میں شہادت کاواقعہ تاریخِ اسلام کابہت ہی افسوسناک حادثہ اورتاقیامت تمام اہلِ ایمان کو خون کے آنسورُلانے والااندوہناک واقعہ ہے۔اس واقعے کوتاریخِ اسلام میں ’’فتنہ‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے، کیونکہ رسول اللہﷺکامبارک دورگذرجانے کے بعدیہ اولین فتنہ تھا، جس کے نتائج واثرات اس قدربھیانک اوردوررس تھے کہ اس ایک فتنے سے آئندہ صدیوں تک مزیدکئی فتنے جنم لیتے رہے،یہ فتنہ عرصۂ درازتک مختلف شکلیں بدل بدل کر،اُمت کیلئے باہمی اختلاف وافتراق اوربڑے مصائب وآلام کاسبب بنتارہا،اس فتنے کے نتیجے میں مختلف زمانوںمیں مسلمانوں میں باہم خونریزاورتباہ کُن تصادم کی نوبت آتی رہی،اوراسی فتنے کے نتیجے میں ہی امتِ مسلمہ تاقیامت متعددفرقوں اورگروہوں میں بٹ کررہ گئی،جس کی وجہ سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہوئی اورتقسیم درتقسیم کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔

اس افسوسناک فتنے کاپس منظرانتہائی مختصرطورپریوں بیان کیاجاسکتاہے کہ:

حضرت عثمان بن عفان ؓ بہت زیادہ شرمیلے ، انتہائی نرم مزاج ، اورحلیم وبردبارتھے،آپؓ نے جب منصبِ خلافت سنبھالاتوابتدائی چھ سال تواسلامی مملکت کے اطراف واکناف میں سابق خلیفہ یعنی حضرت عمربن الخطاب ؓ کی سختی کااثرجاری رہا ، جس کی وجہ سے امورِسلطنت بدستوردرست اندازمیں چلتے رہے،لیکن رفتہ رفتہ بدنیت ، سازشی ، اورشرپسندقسم کے لوگوں نے نئے خلیفہ کے مزاج کوسمجھ لیا،چنانچہ انہوں نے اس صبروتحمل ، نرم دلی ومہربانی ، اورحلم وبردباری کاناجائزفائدہ اٹھایا،اوریوں انہیں سازشوں اورریشہ دوانیوں کاموقع مل گیا،بالفاظِ دیگربہت سے بدخصلت لوگوں کواپنے انتہائی شریف النفس اورمہربان خلیفہ کی شرافت راس نہ آئی،جابجاخفیہ تنظیمیں قائم کرلی گئیں، اورمرورِوقت کے ساتھ یہ فتنہ مضبوط ہوتاچلاگیا۔

خلیفہ ٔ دوم کے زمانے میں بہت بڑے پیمانے پراسلامی فتوحات کے نتیجے میں حدودِسلطنت بہت زیادہ وسعت اختیارکرچکی تھیں،رعیت میں اب بہت بڑی تعدادمیں عرب وعجم ہرقسم کے لوگ شامل تھے،ان کی زبانیں مختلف تھیں،ان کاپس منظرایک دوسرے سے جداتھا،ماضی میں ان کاتعلق مختلف تہذیبوں اورثقافتوں سے رہاتھا،قبولِ اسلام سے قبل ان کے سابقہ مذاہب وادیان جداجداتھے،اورپھرقبولِ اسلام کے بعدکیفیت بھی جدا جداتھی،کوئی خلوصِ نیت کے ساتھ برضاورغبت مسلمان ہواتھا،کوئی کسی دنیاوی مصلحت کے تحت مسلمان ہواتھا،کوئی محض ’’جذبۂ انتقام‘‘کی بناء پرمسلمان ہواتھا، چنانچہ اسلامی فتوحات کے اس سیلِ رواں کوجب بزورِطاقت روکنے کاکوئی طریقہ نظر نہ آیاتوان شرپسندوں اورچھپے ہوئے بدخواہوں نے مکروفریب ، سازش ، اورنفاق کے ذریعے دینِ اسلام کے خلاف اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کافیصلہ کیا،اوریوں مسلمانوں کے ہاتھوں میدانِ جنگ میں اپنی گذشتہ ناکامیوں کابدلہ اب عیاری ومکاری کے ذریعے لینے کی ٹھانی،اوریہ لوگ جگہ جگہ گھوم پھرکرحضرت عثمان بن عفان ؓ کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکاتے رہے اوراس فتنے کومسلسل ہوادیتے رہے۔

آخرسن ۳۵ہجری میں حجِ بیت اللہ کے موقع پردوردرازکے علاقوں سے یہی شرپسندلوگ حاجیوں کے روپ میں بہت بڑی تعدادمیں حجازکی جانب روانہ ہوگئے،اس دوران مدینہ کے قریب پہنچنے پرمکہ کی جانب اپناسفرجاری رکھنے کی بجائے مدینہ کے مضافات میں ہی انہوں نے اپنے خفیہ ٹھکانے بنالئے۔اُس موقع پرمدینہ کے عام باشندے بڑی تعدادمیں ، نیزاکابرِصحابہ میں سے بھی اکثریت مدینہ میں موجودنہیں تھی،یہ حضرات حجِ بیت اللہ کی غرض سے مکہ گئے ہوئے تھے اورمدینہ شہر تقریباًخالی تھا،جبکہ تمام اسلامی لشکردوردرازکے ممالک میں مختلف محاذوں پردشمنوں کے خلاف برسرِپیکارتھا،خودمدینہ شہرمیں (جواس وقت اولین اسلامی ریاست کادارالحکومت تھا)کوئی اسلامی فوج موجودنہیں تھی،کیونکہ وہاں کے تمام باشندے باہم شیروشکرتھے ، وہاں مکمل امن امان اورسکون واطمینان کی فضاء تھی ، وہاں کبھی کسی فوج کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئی تھی،ایسے میں دوردرازکے علاقوں سے اتنی بڑی تعدادمیں یہ فسادی اورشرپسندعناصرحجاجِ بیت اللہ کے بھیس میں اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کی غرض سے وہاں آدھمکے ، لہٰذاتعدادکے لحاظ سے یہ شرپسندشایداُس وقت خودمدینہ میں موجوداصل باشندوں سے بھی زیادہ تھے، اس نادرموقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خلیفۂ وقت نیزدیگرمسلمانوں کی حجِ بیت اللہ کے بعدمکہ سے مدینہ واپسی سے قبل ہی وہاں اپنے قدم جمالئے اوراپنی پوزیشن مستحکم کرلی،نیزخلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان ؓ کے گھرکامحاصرہ کرلیاجواِن کی شہادت تک(چالیس روز) مسلسل جاری رہا، اشیائے خوردونوش کی رسدبندکردی گئی،بئررومہ نامی مشہورکنواں جوہجرتِ مدینہ کے فوری بعدجب وہاں مسلمانوں کوپینے کے پانی کی شدیدقلت کاسامنا تھا، تب حضرت عثمان ؓ نے اپنی جیبِ خاص سے نقدبیس ہزاردرہم اداکرکے وہ کنواںایک یہودی سے خرید کرمسلمانوں کیلئے وقف کردیاتھا،اورتب ہی سے (یعنی تقریباًگذشتہ پینتیس سال سے) تمام اہلِ مدینہ مسلسل اسی کنویں سے (بالکل مفت) پانی پی رہے تھے،لیکن اب ان فسادیوں کی آمدکے بعداسی کنویں کے پانی سے حضرت عثمان ؓ اوران کے اہلِ خانہ کو محروم کردیاگیا،یوں اس ظالمانہ محاصرے کے دوران مظلوم خلیفۂ وقت اوران کے اہلِ خانہ کے شب وروزنہایت عسرت ومشقت کی کیفیت میں بسرہونے لگے۔

اس دوران کبارِصحابہ میں سے متعددحضرات نے باربارپیشکش کی کہ ’’ہم آپ کوکسی طرح خفیہ طورپر یہاں سے نکال لے جائیں،مکہ یاکسی اورمحفوظ مقام پرپہنچادیں‘‘۔ لیکن ہربارحضرت عثمانؓ نے یہی جواب دیاکہ ’’میں جِوارِرسولﷺ نیز’’دارالہجرۃ‘‘کوچھوڑ کر کسی اور جگہ ہرگزنہیں جاؤں گا۔‘‘

اورجب متعددکبارِصحابہ نے باربار ان فسادیوں اورباغیوں کوبزورِطاقت وہاں سے رفع دفع کرنے کی اجازت چاہی،تب ہربارحضرت عثمانؓ نے یہ کہتے ہوئے اجازت دینے سے انکارکیاکہ ’’مجھے یہ بات ہرگزگوارانہیں کہ محض میری جان بچانے کی خاطر رسول اللہ ﷺ کی مسجدکے پڑوس میں خونریزی کاکوئی سلسلہ ہو‘‘۔

دراصل حضرت عثمان بن عفان ؓ کواپنی شہادت کامکمل یقین تھا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ انہوں نے رسول اللہﷺکے ساتھ بہت پہلے سے ہی ایک عہدوپیمان کررکھاتھا،جس پروہ سختی کے ساتھ تادمِ زیست قائم رہناچاہتے تھے،اس بارے میں چنداحادیث ملاحظہ ہوں:

1-عَن أنَسٍ رَضِيَ اللّہُ عَنہ: ( أنَّ النَّبِيَّﷺ صَعِدَ أُحُداً ، فَتَبِعَہُ أَبُوبَکرٍ وَ عُمَرُ وَعُثمَانُ ، فَرَجَفَ بِھِم ، فَضَرَبَہُ نَبِيُّ اللّہِ ﷺ بِرِجلِہٖ وَ قَالَ: اُثبُت أُحُد ، فَمَا عَلَیکَ اِلّا نَبِيٌّ وَصِدِّیقٌ وَشَھِیدَانِ(ابوداؤد)

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک باررسول اللہﷺ اُحدپہاڑ پر چڑھے، اورپھر آپ ﷺ کے پیچھے ابوبکر ، عمر ، اورعثمان رضی اللہ عنہم بھی وہاں پہنچ گئے، اُس وقت اُحدپہاڑ کچھ لرزنے لگا،تب آپ ﷺ نے اس پراپناپاؤں مارتے ہوئے فرمایا:’’اے اُحد ٹھہرجاؤ،کیونکہ اس وقت تم پرایک نبی ، ایک صدیق ، اوردوشہیدموجودہیں۔‘‘

2-عَن أبِي مُوسَیٰ الأشعَرِي رَضِيَ اللّہُ عَنہ: (کُنتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَائَطٍ مِن حِیطَانِ المَدِینۃِ ، فَجَائَ رَجُلٌ فَاستَفتَحَ ، فَقَالَ النَّبِيِّ ﷺ : اِفتَح لَہُ وَبَشِّرہُ بَالجَنَّۃِ ، فَفَتَحتُ لَہُ ، فَاِذَا ھُوَ أَبُوبَکرٍ ، فَبَشَّرتُہُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَحَمِدَ اللّہَ ، ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ فَاستَفتَحَ ، فَقَالَ النَّبِيِّ ﷺ : اِفتَح لَہُ وَبَشِّرہُ بَالجَنَّۃِ ، فَفَتَحتُ لَہُ ، فَاِذَا ھُوَ عُمَرُ ، فَبَشَّرتُہُ بِمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ، فَحَمِدَ اللّہَ ، ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ فَاستَفتَحَ ، فَقَالَ لِي : اِفتَح لَہُ وَبَشِّرہُ بَالجَنَّۃِ عَلَیٰ بَلوَیٰ تُصِیبُہُ ، فَاِذَا عُثمَانُ ، فَأخبَرتُہُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ ، فَحَمِدَ اللّہَ ، ثُمَّ قَال : اَللّہُ المُستَعَانُ(بخاری)

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ’’ ایک باررسول اللہﷺکے ہمراہ جب میں مدینہ کے باغوں میں سے کسی باغ میں موجودتھا ، تب کسی شخص نے وہاں آکردروازہ بجایا،اس پررسول اللہﷺنے فرمایا:’’اس کیلئے دروازہ کھول دو، نیز اسے جنت کی خوشخبری بھی سنادو‘‘میں نے دروازہ کھول دیا،وہ ابوبکرتھے،میں نے انہیں رسول اللہﷺکے ارشادکے مطابق وہ خوشخبری سنائی،جس پرانہوں نے اللہ کی تعریف بیان کی۔

کچھ دیربعدپھرکسی شخص نےدروازہ بجایا،رسول اللہﷺنے فرمایا:’’اس کیلئے دروازہ کھو ل دو، نیزاسے جنت کی خوشخبری بھی سنادو‘‘میں نے دروازہ کھول دیا،وہ عمرتھے،میں نے انہیں رسول اللہﷺکے ارشادکے مطابق وہ خوشخبری سنائی،جس پرانہوں نے اللہ کی تعریف بیان کی۔

کچھ دیربعدپھرکسی شخص نے دروازہ بجایا،اس پررسول اللہﷺنے فرمایا:’’اس کیلئے دروازہ کھو ل دو، نیزاسے جنت کی خوشخبری بھی سنادو،ایک آزمائش سے گذرنے کے بعد‘‘میں نے دروازہ کھول دیا،وہ عثمان تھے،میں نے انہیں رسول اللہﷺکے ارشاد کے مطابق وہ خوشخبری سنائی،نیزیہ بات بھی بتائی کہ جنت کی خوشخبری توہے ،لیکن ایک آزمائش سے گذرنے کے بعد،جس پرانہوں نے اللہ کی تعریف بیان کی،نیزیہ بھی کہا ’’اللہ مددگارہے‘‘۔

امام یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَفِیہِ فَضِیلَۃُ ھٰؤلَائِ الثَّلَاثَۃِ … وَأنَھُم مِن أھلِ الجَنَّۃِ … وَیَستَمِرُّونَ عَلَیٰ الاِیمَانِ وَالھُدَیٰ(المنہاج فی شرح مسلم ))’اس حدیث سے ان تینوں حضرات [ابوبکروعمروعثمان ؓکی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، نیزیہ کہ یہ تینوں اہلِ جنت میں سے ہیں،اوریہ کہ ایمان اورہدایت پرتادمِ زیست ثابت قدم رہیں گے‘‘۔

اسی طرح اس حدیث سے رسول اللہﷺکایہ معجزہ بھی ظاہرہوتاہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ساتھ پیش آنے والے اس ’’بلویٰ‘‘ یعنی آزمائش کی پیشگی خبردے دی ۔

نیزاس حدیث سے حضرت عثمان بن عفان ؓ کی طرف سے رسول اللہﷺکے ہرارشادپر ،خصوصاًاس ارشادپرمضبوط اوراٹل ایمان اورتصدیق کااظہاربھی ہوتاہے کہ آپؓ نے رسول اللہﷺکی زبانِ مبارک سے اپنے بارے میں اس آزمائش کاتذکرہ سننے کے بعداللہ سے اس آزمائش کے ٹلنے کی دعاء نہیں کی،بلکہ اس موقع پراپنے لئے اللہ سے مددواستعانت اورصبروثبات کی دعاء مانگی،جیساکہ اس موقع پران کی طرف سے اَللّہُ المُستَعَانکہنے کے علاوہ ، متعددروایات میں اَللّھُمَّ صَبراً کے الفاظ بھی واردہوئے ہیں۔

مقصدیہ کہ رسول اللہﷺنے جب اس آزمائش کی خبردی ہے تویہ خبریقینادرست ہے،لہٰذااسے ٹالنے کی فکریادعاء کی بجائے اللہ سے اپنے لئے صبروبرداشت ، عزیمت واستقامت ، اورہمت وحوصلے کی دعاء مانگی۔

3- ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بارعثمان بن عفان ؓ کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: یَا عُثمَان ، لَعَلَّ اللّہَ یُقَمِّصُکَ قَمِیْصاً ، فَاِن أَرَادَکَ المُنَافِقُونَ عَلیٰ خَلْعِہٖ فَلَاتَخلَعہُ لَھُم حَتَّیٰ تَلقَانِي(ترمذی)’’اے عثمان! اللہ آپ کوایک خلعت پہنائے گا،تب منافقین آپ سے اس خلعت کواتاردینے کامطالبہ کریں گے ،لیکن آپ اسے مت اتارئیے گا تاوقتیکہ آپ [اسے پہنے ہوئے ہی] مجھ سے آملیں‘‘۔

رسول اللہﷺکے اس ارشادمیں ’’خلعت‘‘(لباس)سے حضرت عثمان بن عفان ؓ نے ’’خلافت‘‘مرادلی تھی ،لہٰذاباغی ان سے خلافت سے دستبرداری کاجومسلسل مطالبہ کررہے تھے ،اس کے جواب میں وہ رسول اللہﷺکے اسی ارشاد ، بلکہ اس تاکیدپرمضبوطی سے عمل پیراتھے،یعنی کسی صورت اس ’’خلعت‘‘کونہیں اتارنا(یعنی خلافت سے دستبردارنہیں ہونا)کہ جواللہ نے پہنائی ہے،اوریہ کہ اس دستبرداری کامطالبہ کرنے والے لوگ برحق نہیں،بلکہ محض منافقین ہیں!

4- عَن ابنِ عُمَرَ : ذَکَرَ رَسُولُ اللّہِ ﷺ فِتنَۃً ، فَقَالَ : یُقتَلُ فِیھَا ھٰذَا مَظلُوماً ، لِعُثمَان (ترمذی)

’’حضرت ابن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ایک باررسول اللہﷺنے ایک فتنے کاتذکرہ فرمایا،تب آپ ﷺ نے حضرت عثمان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ شخص اسی فتنے کے موقع پر مظلومیت کی حالت میں قتل کردیاجائے گا‘‘۔

4- عَن مُرَّۃ بن کعب : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّہ ﷺ یَذکُرُ فِتنَۃً یَقرُبُھا ، فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِثَوبٍ ، فَقَالَ : ھٰذَا یَومَئِذٍ عَلَیٰ الھُدَیٰ ، فَقُمتُ اِلَیہِ ، فَاِذَا ھُوَ عُثمَانُ بن عَفَّان ، فَأَقبَلتُ اِلَیہِ بِوَجْھِي ، فَقُلتُ : ھٰذَا؟ قَالَ: نَعَم(ترمذی)

’حضرت مُرّۃ بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ ایک بارمیں نے رسول اللہ ﷺ کوایک ایسے فتنے کاتذکرہ کرتے ہوئے سناجوجلدہی ظاہرہونے والاتھا،اسی دوران ایک شخص وہاں سے گذرا جس نے کپڑے سے سے اپنامنہ ڈھانپ رکھا تھا، آپ ﷺ نے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’اُس فتنے کے موقع پریہ شخص ہدایت پرہوگا‘‘۔ تب میں اٹھ کراس شخص کے قریب پہنچا،میں نے دیکھاکہ وہ توعثمان بن عفان ہیں، اس پرمیں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا’’یہی شخص؟‘‘ آپ ﷺ نے جواب میں ارشادفرمایا’’ہاں یہی شخص‘‘۔

غرضیکہ اس فتنے کے بارے میں رسول اللہﷺکے یہ تمام ارشادات اوراس موقع پر آپ ﷺ کی طرف سے ہدایات وتنبیہات،یہ سب کچھ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پیشِ نظرتھا،اسی وجہ سے وہ مکمل مطمئن تھے اورصبروثبات ، نیزمکمل عزیمت واستقامت کے ساتھ ان تمام ترمشکلات کامقابلہ کررہے تھے،اوراس دوران اکابرصحابہ میں سے جب بھی جس کسی نے بھی کسی بھی شکل میں تعاون کی پیشکش کی ، توآپؓ نے ہمیشہ یہی جواب دیاکہ ’’میں نے رسول اللہﷺکے ساتھ ایک عہدوپیمان کررکھاہے،میں اسی پرقائم ہوں‘‘۔

ایک روزحضرت عثمان بن عفان ؓ کے گھرکے دروازے پرموجودمدینہ کے عام مسلمانوں اوران باغیوں کے درمیان جھڑپ کی نوبت آئی جس کے نتیجے میں فریقین کے متعددافرادزخمی ہوگئے،تب مدینہ کے باشندے (جن کی تعدادسات سوسے زائدتھی،جن میں متعدداکابرصحابہ کرام بھی شامل تھے،حضرت عثمانؓ کے گھرکے سامنے جمع ہوئے اوران سے باغیوں کے خلاف مدافعت کی اجازت چاہی،لیکن حسبِ سابق اس باربھی حضرت عثمانؓ نے انکارکیا ،اورانہیں سمجھابجھاکر،بلکہ خوب اصرارکرکے واپس روانہ کردیا۔

اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا،حالات مزیدبگڑتے چلے گئے ،محاصرہ طول پکڑتاگیا،فاقے بڑھتے گئے،آخرمسلسل فاقوں کے دوران ایک روزحضرت عثمان بن عفان ؓ نے روزہ رکھا،دن بھرعبادت وتلاوتِ قرآن میں مشغول رہے،جب شام ہوئی توافطارکیلئے پانی تک میسرنہ آسکا،اسی کیفیت میں تمام رات گذرگئی،دوسری صبح ان کی اہلیہ نائلہ ایک پڑوسن سے خفیہ طورپرکچھ پانی مانگ کرلائیں ، اوراپنے شوہرکوپیش کیا،جبکہ طلوعِ صبح سے قبل ہی حضرت عثمانؓ بغیرکچھ کھائے پئے ہی دوبارہ روزے کی نیت کرچکے تھے،نمازِفجرکے بعدقرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہوگئے،اس دوران کچھ دیرکیلئے آنکھ لگ گئی توخواب میں دیکھاکہ رسول اللہﷺنیزحضرات ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکسی باغ میں تشریف فرماہیں ، اورانہیں مخاطب کرتے ہوئے یوں فرما رہے ہیں ’’عثمان!آج شام تم روزہ ہمارے ساتھ افطارکروگے۔‘‘

نیندسے بیدارہوتے ہی صاف ستھرانفیس لباس زیب تن کیا،اورعبادت میں مشغول ہوگئے،دن بھریہی کیفیت رہی،نیزاس روزاللہ کی رضامندی وخوشنودی کی خاطربیس غلام بھی آزادکئے۔

اتفاق سے اسی روزمدینہ میں یہ خبرگردش کرنے لگی کہ ان باغیوں کی سرکوبی کی غرض سے اسلامی ریاست کے دوردرازکے بعض علاقوں سے متعددلشکرمدینہ کی جانب رواں دواں ہوچکے ہیں،اس خبرکی وجہ سے باغیوں نے اپنی مذموم کارروائیاں تیزکرنے کی ٹھانی۔

مزیدیہ کہ اس موقع پرمدینہ شہرمیں موجودکبارِصحابۂ کرام میں سے متعددحضرات نے اپنے نوجوان بیٹوں کوحضرت عثمان بن عفان ؓ کے گھرکی حفاظت پرمأمور کررکھاتھا،تاکہ ان باغیوںمیں سے کوئی کسی صورت اندرداخل نہ ہوسکے،ان نوجوانوں میں بالخصوص حسن بن علی بن ابی طالب ، حسین بن علی بن ابی طالب،عبداللہ بن عمربن الخطاب،نیز عبداللہ بن زبیربن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین پیش پیش تھے ۔

اسی صورتِ حال میں وہ دن گذرتارہا،سورج حسبِ معمول اپناسفرطے کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھتارہا،جب افطارکاوقت قریب آنے لگاتونہ جانے کہاں سے کسی باغی کاچلایاہواتیرفضاء میں اُڑتاہواآیااورحضرت عثمان بن عفان ؓ کے دروازے پرحفاظت کی غرض سے موجودنوجوانوں میں سے حضرت حسن ؓ کوآلگا،جس پروہ زخمی ہوگئے اورخون بہنے لگا،یہ منظردیکھ کرباغی گھبراگئے اورباہم یوں سرگوشیاں کرنے لگے کہ حسن رضی اللہ عنہ زخمی ہوچکے ہیں ، نواسۂ رسولؐ ہونے کی وجہ سے ان کی خاص قدرومنزلت ہے ،نیزان کے خاندان بنوہاشم کابھی بہت زیادہ اثرورسوخ ہے،لہٰذاان کازخمی ہوجاناہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،عین ممکن ہے کہ مدینہ کے سب باشندے اب مشتعل ہوجائیں ، اورہمارے خلاف کوئی بڑافیصلہ کن اقدام کریں،لہٰذااب مزیدتاخیرہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگی، جو کرنا ہے صورتِ حال بگڑنے سے قبل بس ابھی فوری طورپرکرلیاجائے۔

اس باہمی مشاورت کے بعدفوری طورپرکچھ باغی عقبی راستے سے خفیہ طورپرحضرت عثمان بن عفان ؓ کے گھرسے متصل ابوحزم انصاری ؓ کے گھرمیں داخل ہوئے، اورپھروہاں سے دیوارپھلانگتے ہوئے حضرت عثمان ؓ کے گھرکی چھت پرجاپہنچے،وہاں سے گھرکے اندرونی حصے میں اترگئے،باہرکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہوسکی ،مہاجرین وانصارمیں سے متعدداکابرصحابۂ کرام کے نوجوان بیٹے بدستور وہاں دروازے پرپہرہ دیتے رہے،لیکن اندرکی صورتِ حال کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔

اُدھرعقبی راستے اورپھرچھت سے ہوتے ہوئے باغی آخرجب حضرت عثمان بن عفان کے گھرکے اندرونی حصے میں پہنچے توسیدھے اُس مقام کی جانب گئے جہاں حضرت عثمانؓ بیٹھے ہوئے انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ تلاوتِ قرآن میں مشغول تھے، تب ایک سنگدل باغی نے آگے بڑھ کرپوری قوت سے لوہے کی سلاخ پیشانی پردے ماری، عجب اتفاق کہ اُس وقت آپ ؓ یہ آیت تلاوت کررہے تھےفَسَیَکفِیکَھُمُ اللّہُ وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ صِبغَۃَ اللّہِ وَ مَن أَحسَنُ مِنَ اللّہِ صِبغَۃً وَنَحنُ لَہ، عَابِدُونَ(البقرہ 137)”اللہ عنقریب ان سے آپ کوکافی ہوجائے گا،اوروہ خوب سننے اورجاننے والاہے، اللہ کارنگ اختیارکرو،اوراللہ سے اچھارنگ کس کاہوگا،ہم تواسی کی عبادت کرنے والے ہیں”۔اس آیت کی تلاوت کے ساتھ ہی پیشانی پر جب اس آہنی سلاخ کی ضرب لگی،توخون بہنے لگا،تب اس بہتے ہوئے خون کے کچھ چھینٹے قرآن کریم کے اس نسخے میں اس آیت پربھی جاگرے ۔اس کے بعدایک اوربدبخت نے آگے بڑھ کرتلوارسے وارکیا،جسے آپؓ نے اپنے ہاتھ پرروکنے کوشش کی ،جس پرآپؓ کاہاتھ کٹ کربازوسے جداہوگیا،تب آپؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ’’یہ وہی ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن لکھاتھا۔

باغی نے دوبارہ وارکیا،اس بارآپؓ کی اہلیہ نائلہ نے آگے بڑھ کراپنے ہاتھ پراس وار کوروکناچاہا،جس پران کے ہاتھ کی انگلیاں کٹ کردورجاگریں،اس کے بعدایک باغی نے آپؓ پرتلوارسے پے درپے کئی وارکئے ۔

یوں چالیس روزتک مسلسل جاری رہنے والے اس ظالمانہ ومجرمانہ محاصرے کے بعد بالآخر۱۸ ذوالحجہ سن ۳۵ ہجری ،جمعہ کی شام مغرب سے کچھ قبل خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان ؓ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتہائی مظلومیت وبے بسی کی کیفیت میں،بیاسی سال کی عمرمیں، اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

باغی جس طرح خفیہ طریقے سے اندرآئے تھے ، اُسی طرح اس مجرمانہ کارروائی کے بعد نہایت سرعت کے ساتھ خفیہ طریقے سے غائب ہوگئے…باہرکسی کوکچھ خبرہی نہ ہوسکی… کچھ دیربعدجب ان کی زخمی اہلیہ نائلہ کے ہوش وحواس قدرے بحال ہوئے توانہوں نے چیخناچلاناشروع کیا،تب سب لوگ دوڑے ہوئے وہاں پہنچے اورانتہائی المناک اور دلخراش منظردیکھ کردم بخودرہ گئے۔

جُبیربن مطعم ؓ نے نمازِجنازہ پڑھائی، اور پھر تحمل وبرداشت ، غیرت وحیاء،اورعصمت وشرافت کے اس پیکرکوغسل دئیے بغیر،انہی خون آلودکپڑوں میں ہی رات کی تاریکی میں ’’بقیع‘‘میں سپردِخاک کردیاگیا۔

یہ ہے مظلوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی المناک داستان،اہلِ ایمان تاقیامت جب بھی یہ داستان پڑھیں گےتویقینایہ داستان انہیں خون کے آنسورُلاتی رہے گی۔خلیفۂ سوم ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ساتھ یہ جواتنابڑاظلم ہوا، اور یہ اتنابڑاجوفتنہ پیش آیا،اس کے برے نتائج ، ناقابلِ تلافی نقصانات ، اورمنفی اثرات آج تک مسلسل جاری وساری ہیں،یہی فتنہ مختلف اوقات میں مختلف شکلیں بدلتاہوا آگے بڑھتارہااورتباہیاں پھیلاتارہا،جس کے نتیجے کے طورپرکتنے ہی مزیدفتنے پیداہوتے رہے، باہمی جنگوں اورخونریزیوں کی نوبت آتی رہی۔

غرضیکہ امتِ مسلمہ میں آج تک جو افتراق وانتشارہے ، نفرتوں اورتفرقہ بازیوں کاجو لامتناہی سلسلہ ہےیہ سب اسی کا اثر اور اسی کانتیجہ ہےبلکہ اسی کا ’’وبال‘‘ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں