حضرت دامت برکاتہم کی پہلی نشست
(جامعۃ الرشید)
آج کی مجلس میں آپ حضرات کی زیارت مقصود ہے. میں تمام فضلائے کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے لیے میری بہت زیادہ دعائیں ہیں.
اس اجتماع کو منعقد کے لیے بہت زیادہ محنت ہوئی ہے. تقریباً دو ماہ اس کی تیاریوں میں صرف ہوئے.
آج کے حالات کے سنگینی سب کے سامنے ہے. جب بھی حالات کسی ایسے موڑ پر پہنچتے ہیں، ہماری نظر اپنے فضلاء، اپنے بچوں، اپنے ساتھیوں کی طرف جاتی ہے. اور وہ آپ لوگ ہیں.
جامعۃ الرشید جس مشن کو لے کے چل رہا ہے، آپ اس کے دست و بازو بنیں.
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دس کے برابر ہے. اور یہ حکم منسوخ نہیں ہے. اس امت کا ایک فرد بھی پورے معاشرے میں تبدیلی لا سکتا ہے. مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ اکیلے آدمی تھے. حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اکیلے تھے. حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اکیلے تھے.
آج کے عالمگیریت کے دور میں کاموں میں تیز رفتاری آئی ہے. عصرِ حاضر کے اسباب و وسائل کو استعمال کر کے بہت بڑی سطح کا کام کر سکتے ہیں.
اللہ تعالیٰ نے اسلام میں برکت عطا فرمائی ہے کہ اگر مسلمان استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں اور “احسان” یعنی Excellency کے ساتھ کریں تو ہم مغربی ممالک سے زیادہ کام کر سکتے ہیں.
ایک فاضل کے سوال کے جواب میں کہ ہم “ثالثی/ مصالحت/ جرگہ ” کا کام کیسے کریں تو فرمایا : لوگوں کے سامنے شریعت کی خوبیاں لے کر آئیں. اس کام کو ایک ادارتی شکل دیں. اسے اپنے دارالافتاء کے ساتھ جوڑ دیں. وہاں ایک مفتی ایسا مقرر کریں جو تحکیم و مصالحت کے فن کا ماہر ہو، پھر فریقین سے ان کی رضا مندی لکھوا کر ان کا مسئلہ حل کریں تو کچھ مشکل نہیں. جو فضلاء یہ کام کرنا چاہیں، ہم ان کا تعاون کریں گے.
جامعۃ الرشید پر بہت زیادہ بوجھ ہے. فضلائے کرام کو چاہیے کہ وہ انہی خطوط پر کام کریں. ہم پوری سرپرستی کریں گے.
معاشرے میں تبدیلی کے لیے 4 کام ضروری ہیں. ایک: ادارہ سازی، دو: افراد سازی. تین: دستور سازی و نصاب سازی. چار: ماحول سازی.
جامعۃ الرشید آپ کو کسی بھی تنظیم، جماعت، ادارے اور پارٹی کے ساتھ منسلک ہونے سے منع نہیں کرتا. ہم تو چاہتے ہیں کہ جامعہ کے فضلا اس کے مشن کو لے کر ہر میدان میں پہنچیں.
آپ ان ساری وابستگیوں کو برقرار رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ اپنا پیغام پہنچائیں اور سب کو ان کا احترام اور مقام دیں.
ایک سوال کیا گیا کہ جامعۃ الرشید کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسی صورت حال میں ہم کیا کریں. جواب میں فرمایا کہ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ مجھے بنایا جاتا ہے. اس سے پریشان نہ ہوں. ان شاء اللہ جو بھی ہمیں خود دیکھے اور براہ راست سمجھے گا، اس کے سب اشکال دور ہو جائیں گے. بہت سے احباب اخلاص کے ساتھ اور محبت کی وجہ تنقید کرتے ہیں. آپ پورے اخلاق کا مظاہرہ کریں. ان شاء اللہ! ایک وقت آئے گا کہ وہ صحیح بات کو سمجھ جائے گا.
جامعہ کی پالیسیوں کے بننے پر بہت زیادہ محنت ہوتی ہے. بہت بڑی ریسرچ اور طویل تجربہ و انتظار کارفرما ہوتا ہے. شریعت اور اکابر کی منشا کو دیکھا جاتا ہے. احتیاط کا خیال کرتے ہوئے کافی وقت انتظار کیا جاتا ہے. جوں جوں وقت گزرے گا، ان شاء اللہ! اشکالات ختم ہوں گے اور اطمینان ہو گا.
نشست برائے ذکر و اصلاحی مجلس
حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم
حضرت استاد صاحب دامت برکاتہم کی دوسری نشست
فتنے تو پہلے بھی آتے رہے ہیں، لیکن اس وقت فتنوں کی جو یلغار ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی.
ایک فتنہ “قساوت قلبی” ہے. یہ ہر جگہ موجود ہے گھروں، اداروں یہاں تک کہ مدرسوں، مسجدوں اور خانقاہوں میں بھی موجود ہے
ان فتنوں سے بچنے کے لیے تین باتوں کا اہتمام کریں.
(1) معمولات مقرر کرلیں، تھوڑے ہوں مگر ہمیشہ ہوں، اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو ترک نہ کریں بلکہ تقلیل کریں.
(2)مقدار متعین کرلیں، اس لیے کہ مقدار انسان کو معمول پورا کرنے پر برانگیختہ کرتی ہے.
(3) معمولات کے لیے وقت مقرر کرلیں، بہتر یہی ہے صبح کے وقت اپنے معمولات سے فارغ ہو جائیں. اس کا فائدہ یہ ہے کہ پورا دن سکون سے گزرتا ہے.
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے تھے. اپنے معمولات کے لیے جگہ بھی متعین کرلیں.
طلبہ کرام کو چاہیے تہجد اور قیام الیل کو اپنے معمولات میں شامل کریں، دوران تعلیم اگر تہجد کی عادت نہ ہو تو فراغت کے بعد مشکل ہے.
جمعہ کے دن سورہ کہف کا اہتمام کریں.
اس اجتماع کا ایک مقصد شخصی اصلاح اور ریاست کو در پیش مسائل کے حل کے لیے اپنی طرف سے کوشش کرنا ہے.
ایام بیض کے روزوں کا اہتمام کریں، اس میں بہت سارے فوائد ہیں.
جو کچھ سنیں، اس پر عمل کریں.
میڈیا رپورٹنگ ٹیم فضلاء اجتماع جامعۃ الرشید 2019