حجام کی کمائی کاحکم

الجواب حامدا ومصلیا

(1)ـ۔ حجام کی کمائی کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ شیو بناتا ہو یا ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرتا ہو تو ان دونوں کاموں کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی آمدنی حرام ہے اوران دونوں کاموں کے علاوہ جو جائز وہ کام کرتا ہے، مثلا سر کے بال کاٹنا ، سر مونڈنا یا خط بنانا، توان کاموں سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے۔

لما فی المبسوط للسرخسی (4 1/38 )

ولا تجوز الاجازۃ علی شیء من الغناء والنوح والمزامیر والطبل و شیء من اللھو، لانہ معصیۃ والاستئجار علی المعاصی باطل فان بعقد الاجارۃ یستحق تسلیم المعقود علیہ شرعا ولا یجوز ان یستحق علی المرء فعل بہ یکون عاصیا شرعا۔  

(2)ـــ اگر حجام  کے پاس اتنی مقدار حلال کی ہو جس کے عوض وہ قربانی میں شریک ہورہا ہے تو اسکے ساتھ قربانی کرنے کی گنجائش ہے۔

 لما فی الدر المختار: ـ (2/290 الزکوۃ سعید)

(ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ فتجب الزکوۃ فیہ ویورث عنہ ) لان الخلط استھلاک اذا لم یکن تمییزہ عند ابی حنیفۃ ، وقولہ ارفق اذا قلما یخلو مال عن غصب۔

(3)۔  اگر حجام حرام رقم سے قربانی میں شریک ہورہا ہے تو اسے شریک نہیں کرنا چاہییے البتہ اگر کسی نے شریک کر لیا ہے تو ایسی صورت میں بعض علماء کے نزدیک ایسے شخص سمیت دوسرے شرکاء کی قربانی بھی درست نہیں ہوگی جبکہ بعض علماء کے نزدیک دوسرے شرکاء کی قربانی بہرحال درست ہو جائے گی اورجس شخص کا مال حلال نہیں ہے اسکی قربانی بھی ذمہ سے اتر جائے گی لیکن اسکو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا، مالی عبادات میں احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے قول پر عمل کیا جائے، تاہم اگر کسی مجبوری میں دوسرے قول پر عمل کرلیا تو اسکی بھی گنجائش ہے، البتہ اگر شریک کرتے وقت یقینی طورپرمعلوم نہ ہو کہ اسکی رقم حرام ہے تو ایسی صورت میں باقی شرکاء کی قربانی بہرحال درست ہو جائے گی۔

لما فی در المختار ( 4/324 )

(وان ) مات احد السبعۃ المشترکین فی البدنۃ (وقال الورثۃ اذبحوا عنہ و عنکم) (صح ) عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل ، ولو ذبحوھا بلا اذن الورثۃ لم ٰیجزھم لان بعضھا لم یقع قربۃ (وان) ( کان شریک الستۃ نصرانیا او مریدا اللحم )(لم یجز عن واحد) منھم لان الاراقۃ لا تتجزا ھدایۃ لما مر۔

وفی رد المختار (4/324 )

(قولہ وان کان شریک الستۃ نصرانیا الخ ) وکذا اذا کان عبدا او مریدا یرید الاضحیۃ لان نیتہ باطلۃ لانہ لیس من اھل القریۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز اصلا بدائع۔

 وفی رد المختار (2/291)

لو اخرج زکاۃ المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوھبانییۃ انہ یجزئ عند البعض۔

(4 ،5)ــ-  مذکورہ دونوں صورتوں میں بھی حجام کے ساتھ قربانی کرنا جائز ہے ۔واللہ تعالی اعلم

عزیر بن طارق بِلوانی

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

۱۶/محرم الحرام/۱۴۳۸

۱۸/اکتوبر/۲۰۱۶

نائب مفتی جامعہ دارالعلوم کراچی

۱۶ /محرم الحرام/۱۴۳۸

الجواب صحیح

شاہ محمد تفضل علی عفی عنہ

بندہ ابراہیم

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیے لنک پرکلک کریں :

https://bit.ly/3ccNLfL

اپنا تبصرہ بھیجیں