فتویٰ نمبر:4066
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
اگر کسی کا حادثہ میں انتقال ہوجائے تو سرکار کی طرف سے عدالت اس یتیم بچے کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم ڈال دیتی ہے تو کیا یہ لینا جائز ہے؟
والسلام
الجواب حامدا ومصليا
اسلام ایک فلاحی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے؛ جس میں غریب اور نادار جن کا کوئی والی اور کفیل نہ ہو ان کے کفیل کا کردار حکومت ادا کرتی ہے، اگر حکومت عدالت کے ذریعے یتیم بچے کو کچھ رقم بطور مالی امداد کے دیتی ہے تو نہ صرف جائز ہے بلکہ افضل اور اولی ہے۔
“عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم: أَنَا وَکَافِلُ الْيَتِيْمِ فِي الْجَنَّةِ هٰکَذَا وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَيْنَهُمَا شَيْئًا”.
(رواه البخاري: 4998)
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا‘‘۔
“عن زيد بن أسلم عن أبيه قال: خرجنا مع عمر بن الخطاب إلى حرة واقم حتى إذا كنا بصرار إذا نار فقال يا اسلم إني لأرى ها هنا ركبا قصر بهم الليل والبرد انطلق بنا فخرجنا نهرول حتى دنونا منهم فإذا بامرأة معها صبيان صغار وقدر منصوبة على نار وصبيانهايتضاغون…..فخرجنا نهرول حتى أتينا دار الدقيق فأخرج عدلا من دقيق وكبة من شحم فقال احمله علي”.
روى عبد الله بن احمد في الفضائل ( 290/1 ح : 382 )
ومن طريق عبد الله بن الامام رواه ابن شاذان في المشيخة الصغرى ( 40/1 ح: 68)
واللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:10/6/ 2019
عیسوی تاریخ:11/2/2019
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: