حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں حیات ہونے کا عقیدہ

سوال: مفتی صاحب : کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں ؟کیا عالم برزخ  میں  آپﷺ جسد عنصری کے ساتھ حیات دنیوی کی طرح زندہ ہیں یا روح کا جسم سے کوئی تعلق نہیں ہے گو جسم سلامت مانا جائےاور حیات صرف روحانی ہو؟

سائل : محمد سلیم

الجواب حامدا ومصلیا

حضور ﷺ اور تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اکابر دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں حیات ہیں،اور ان کے ابدان مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں ،لیکن یہ حیات برزخی عام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے ،اس میں روح کا رشتہ جسد کے ساتھ اتنا زیادہ قوی  رہتا ہے کہ اسے حیات دنیویہ کے  قریب کہا جا سکتا ہے، اور اس کی بناء پر ان پر مطلقاً احیاء کا اطلاق کیا جاتا ہے، اسی ليے انبیاء علیہم السلام کی نہ میراث تقسیم ہوتی ہے، نہ ان کی ازواج مطہرات سے بعد میں کوئی نکاح کر سکتا، اب یہ قوت کس درجہ کی ہے اس کا صحیح علم اللہ ہی کو ہے۔

واضح رہے کہ ان مسائل پر تدقیقات میں پڑنا درست نہیں ہے ان سوالوں کے جواب پر دین کا کوئی عملی حکم موقوف نہیں ہے، نہ ان کی تحقیق کا ہمیں مکلف کیا گیا ہے لہذا اپنے اوقات کو ان مسائل کو معلوم کرنے میں صرف کرنا چاہئے جن کا براہ راست تعلق عملی زندگی سے ہے۔

(البقرۃ۱۵۴)

“ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ أموات بل أحیاء ولکن لاتشعرون”

(آل عمران۱۶۹)

“بل أحیاء عند ربهم یرزقون، فرحین بما اٰتاهم اﷲ من فضله”

“وإذا ثبت أنهم أحياء من حيث النقل فإنه يقويه من حيث النظر كون الشهداء أحياء بنص القرآن والأنبياء أفضل من الشهداء” فتح الباري لابن حجر (6/ 488)

مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8/ 211)

“عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون» رواه أبو يعلى والبزار، ورجال أبي يعلى ثقات”

الحاوي للفتاوي (2/ 178)

“فأقول: حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت به الأخبار”

القول البدیع فی الصلوۃ علی الحبیب الشفیع (167)قال العلامۃ  السخاویؒ

“نحن نؤمن ونصدق بانه صلی الله علیه وسلم حی یرزق فی قبره وان جسده الشریف لا تاکله الارض والاجماع علی هذا”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 151)

“فقد أفاد في الدر المنتقى أنه خلاف الإجماع. قلت: وأما ما نسب إلى الإمام الأشعري إمام أهل السنة والجماعة من إنكار ثبوتها بعد الموت. فهو افتراء وبهتان والمصرح به في كتبه وكتب أصحابه خلاف ما نسب إليه بعض أعدائه؛ لأن الأنبياء – عليهم الصلاة والسلام – أحياء في قبورهم وقد أقام النكير على افتراء ذلك الإمام العارف أبو القاسم القشيريؒ”

المهند علی المفند للعلامة المحدث خلیل احمد السهارنپوری-السوال الخامس -ص ۲۱،۲۲،ط: دار الاشاعت کراچی

’’السوال الخامس ما قولکم فی حیوٰة النبی علیه الصلوةوالسلام فی قبره الشریف،هل ذلک أمر مخصوص به أم مثل سائر المؤمنین رحمة اﷲ علیهم حیوة برزخیة؟

الجواب : عندنا وعند مشائخنا حیإةحضرة الرسالة صلی اﷲعلیه وسلم حی فی قبره الشریف وحیوٰته صلی اﷲعلیه وسلم دنیویة من غیر تکلیف وهی مختصة به صلی اﷲعلیه وسلم وبجمیع الأنبیاء صلوات اﷲ علیهم والشهداء لابرزخیة کماهی حاصلة لسائر المؤمنین بل لجمیع الناس کما نص علیه العلامة السیوطی فی رسالته

أنباه الاذکیاء بحیوۃ الانبیاء‘‘ حیث قال: قال الشیخ تقی الدین السبکی: حیوة الأنبیاء والشهداء فی القبر کحیاتهم فی الدنیا ویشهد له صلوٰۃ موسی علیه السلام فی قبره فان الصلوةتستدعی جسداً حیاً إلی آخر ماقال۔ فثبت بهذا أن حیوته دنیویة برزخیة لکونها فی عالم البرزخ”

واللہ اعلم بالصواب

حنظلہ عمیر بن عمیر رشید

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۸/۵/۱۴۴۱ھ

2019/1/13ء

اپنا تبصرہ بھیجیں