عدت طلاق کے بعد یا وفات کے بعد زوجین کا ایک دوسرے کے بارے میں سوچنا

سوال:عدت ختم ہونے کے بعد کیا اس مرد کے بارے میں سوچنا یا اس کا تذکرہ محبت سے کرنا جائز ہے؟

اسی طرح بیوی کی وفات کے بعد مرد کے لئے مرحومہ بیوی کو سوچنا اور اس کا تذکرہ محبت سے کرنا جائز ہے؟

تنقیح: عدت طلاق سے متعلق سوال ہے یا وفات سے؟

جواب: دونوں کے متعلق سوال ہے

الجواب باسم ملھم الصواب

طلاقِ مغلظہ اور طلاقِ بائن میں چونکہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہوجاتے اس لیےعدت میں یا عدت گزرنے کے بعد اختیاری طور پر ایک دوسرے کے بارے میں سوچنے یا تذکرہ کرنے سے بچا جائے، عین ممکن ہے کہ یہ خیالات گناہ میں مبتلا کروادیں۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:

” دل تمنا کرتا اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے”۔

تاہم طلاقِ بائن کی صورت میں چونکہ تجدیدِ نکاح کا حق باقی رہتا ہے یعنی اگر زوجین چاہیں تو باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں؛اس لیے اگر نکاح کرنے کا ارادہ ہوتو پھر تذکرہ کرنے کی گنجائش ہے۔

وفات کی صورت میں تفصیلی حکم یہ ہے کہ بیوی کی وفات کے ساتھ ہی رشتہ نکاح ختم ہوجاتا ہے اسی لیے مرد کے لیے بیوی کی میت کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔

البتہ شوہر کی وفات کی صورت میں عدت مکمل ہونے تک کسی درجہ میں رشتہ قائم رہتا ہے اس لیے عدت کے دوران عورت کے لیے اپنے مرحوم شوہر کا تذکرہ کرنا درست ہے لیکن عدت کے بعد چونکہ رشتہ نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اس لیے عدت کے بعد وفات کی صورت میں بھی شوہر کا تذکرہ تو جائز ہے لیکن تلذذ حاصل کرنا جائز نہیں۔ جہاں تک غیر اختیاری طور پر یاد آنے کا سوال ہے تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ “قال رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم إن ﷲ کتب علی ابن آدم حظہ من الزنا ، أدرک ذلک لا محالۃ ، فزنا العین النظر ، و زنا اللسان النطق ، و النفس تمنی و تشتھی ، والفرج یصدق ذلک و یکذبہ”

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے آدم کے بیٹے پر زنا میں اس کا حصہ واجب کر دیا ہے ۔ وہ اسے ہر حال میں پا لے گا ۔ چنانچہ آنکھ کا زنا (صنف مخالف کوبری نظر سے)دیکھنا ہے ۔ زبان کا زنا (اس خواہش کے تحت صنف مخالف کے بارے میں ) بات چیت ہے ۔جی تمنا کرتا اور خواہش زور پکڑتی ہے ، شرم گاہ (تومحض) اس (ارادے کے وجود) کی تصدیق اور تکذیب کرتی ہے ۔

(مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول:20)

2 ۔والنفس أي القلب کما فی الروایة الآتیة (تمنی وتشتھي): أي: زنا النفس تمنیھا واشتھاوٴھا وقوع الزنا الحقیقي، وفیہ دلالة علی أن التمني إذا استقر فی الباطن وأصر صاحبہ علیہ ولم یدفعہ یسمی زنا فیکون معصیة ویترتب علیہ عقوبة ولو لم یعمل (مرقاة المفاتیح:1/ 255)

3۔ وإذا کان الطلاق بائناً دون الثلاث، فلہ أن یتزوجہا في العدۃ، وبعد انقضائہا؛ لأن حل المحلیۃ باق لأن زوالہ معلق بالطلقۃ الثالثۃ فینعدم قبلہ۔ (ہدایۃ، باب الرجعۃ 2/ 399)

4۔ ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : المہر واجب فی کل نکاح لقولہ تعالی : {وأحل لکم ما ورآء ذٰلکم أن تبتغوا بأموالکم} ۔ (151)

(فتاوی دارالعلوم دیوبند: 8/ 282)

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۶جمادی الثانی۱۴۴۳ھ

12 جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں