اجتہادی غلطی کس طرح کی غلطی کو کہتے ہیں؟

سوال : اجتہادی غلطی کس طرح کی غلطی کو کہتے ہیں ؟

جواب:

جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتیں ملاحظہ ہوں:

1۔ ”اجتہاد“ اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح کا نام ہے۔ جس کا مطلب انسان میں ایسی صلاحیت کا ہونا ہے جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مآخذ سے اخذ کر سکے. اس قابلیت کو اجتہاد کہا جاتا ہے اور جس شخص کے اندر یہ صلاحیت ہو اسے مجتہد یا فقیہ کہا جاتا ہے۔

اجتہاد کے بعد اگر مجتہد درستی تک پہنچ گیاتو اس کے لیے دو اجر ہیں: ایک اجتہاد کا اور دوسرا درستی کا اور اگر غلطی ہوگئی توپھر بھی ایک اجتہاد کرنے پر ایک اجر ہے. غلطی پر کوئی پکڑ نہیں. چنانچہ حدیث میں ہے:

عَن عَبدِ اللّٰہِ بنِ عَمرٍو وَاَبِی ہُرَیرَۃَ قَالَا:قَالَ رَسُول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:اِذَا حَکَمَ الحَاکِمُ فَاجتَہَدَ وَاَصَابَ فَلَہٗ اَجرَانِ-وَاِذَا حَکَمَ فَا جتَہَدَ وَاَخطَأَ فَلَہٗ اَجرٌ وَاحِدٌ (مشکوٰۃ المصابیح: ص 324 صحیح البخاری : ج2ص 1092 صحیح مسلم: ج 2ص76)

ترجمہ:جب حاکم فیصلہ کرے اور وہ(حکم شرع کے بارے میں)اجتہاد کرے اور درستی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دواجر ہیں اور جب فیصلہ کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے خطا کرجائے تو اس کے لے ایک اجرہے۔

2… ہر مجتہد پر غلطی ظاہر ہونے سے پہلے اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کا حکم ہے۔

3… اجتہادی غلطی عیب نہیں ہے، بلکہ بشری تقاضوں میں سے ہے۔

اب جواب ملاحظہ ہو:

گزشتہ تمام تر تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اجتہادی غلطی کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مجتہد حق کی تلاش کے لیے اپنی تمام تر صلاحیت استعمال کرکے کسی حکم کو اخذ کرتا ہے تو حقیقت میں تو وہ اسے حق سمجھ رہا ہوتاہے، لیکن درحقیقت حق بات تک پہنچنے تک اس کے اجتہاد میں غلطی ہوتی ہے۔گویا آسان الفاظ میں ہوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتہاد کے بعد حق بات تک نہ پہنچنے کا نام نام اجتہادی خطا ہے۔انسان تو خطا کا پتلا ہے ،کسی انسان سے ایسی غلطی کا ہونا عیب کی بات نہیں۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی حق نہ پانے کو اجتہادی خطا کہا گیا ہے۔

========================

ان المجتہد یخطئ ویصیب،والحق فی موضع الخلاف واحد ولکن لا یعلم ذلک الواحد بالیقین-فلہذا قلنا بحقیۃ المذاہب الاربعۃ)۔ (نورالانوار جلد دوم ص301-دار الکتب العلمیہ بیروت)

فقط واللہ اعلم بالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں