کبھی غور کیا کہ جانوروں میں بھی ایک حد تک شعور ہوتا ہے۔ ان کے بچے پیدا ہوتے ہی اپنے اپنے فطری تقاضے انجام دینے لگتے ہیں، بھاگنے دوڑنے اور خود بخود دودھ پینے لگتے ہیں۔ ایک ہرن جب شیر کو دیکھتا ہے تو اس کے قدم خود بخود بھاگنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
لیکن جانوروں کی ہر حرکت اضطراری کیفیت ہوتی ہے جیسے ان کے اندر کچھ فیڈ کیا ہوا ہو، کچھ طریقے کچھ چیزیں ان کے اندر انسٹال کی گئی ہوں اور وہ اپنی محدود ہدایات کے آگے بے بس ہوں۔
انسان ایسا نہیں۔ وہ سوچتا ہے پھر سوچتا ہے کہ میں کیوں سوچتا ہوں؟ وہ زندگی گزارتا ہے، پھر سوچتا ہے میں کیوں زندگی گزارتا ہوں؟
وہ سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے ۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ انسانوں کو زمینی جانوروں سے عقل کے ذریعے جو ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے یہی چیز اس کے لیے امتحان ہے۔ یہی چیز اس کے لیے مدار نجات ہے یا باعث نقصان۔
یہ سوچ، یہ عقل، یہ شعور اللہ کی صفات میں سے ہے، جو انسانوں کو بہت تھوڑی سی مقدار میں بطور ” امانت” دی گئی ہے۔ یہ امانت اسی لیے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعے اس تک پہنچو جو اس صفت کا خالق ہے۔
آخرت میں اصل امتحان اسی “سوچنے اور یقین کرنے” کا ہوگا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں اور کیسے سوچتےہیں۔
تحریر:ثوبان تابش