اسلام سیکولرازم سے بہتر ہے

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا اور وکی پیڈیا کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے لفظ “سیکولرازم” متعارف کرانے والا برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 تھا۔ جارج جیکب عیسائیت سے شدید متنفر تھا۔ وہ عیسائیت کے مذہبی عقائد کو خلاف فطرت ، خلاف عقل اور مضحکہ خیز کہتا تھا۔1846 میں ایک لیکچر کے دوران کسی نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ نہیں مانتے کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے اور اس کی نجات عیسیٰ علیہ السلام کو خدا ماننے پر موقوف ہے؟

اس کے جواب میں جارج جیکب ہولیوٹ نے انتہائی تمسخرانہ انداز اختیار کیا اور کہا کہ آدم کے گناہ کی سزا ہمیں کیوں ملے؟ جبکہ آدم نے نہ مجھ سے مشورہ کیا تھا اور نہ میری بیوی سے اور نہ میرے ماں باپ سے پوچھ کر پھل کھایا تھا۔

(واضح رہے کہ عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے جنت میں پھل کھا کر گناہ کیا جس کی سزا تمام انسانوں کو ہمیشہ ملتی رہے گی اور جو بھی بچہ پیدا ہوگا وہ پیدائشی گنہگار ہوگا۔ یہ واقعی ایک غلط اور خلاف عقل عقیدہ ہے۔ جبکہ اسلام کے مطابق آدم علیہ السلام کا عمل صرف ان کی ذات تک تھا اور پیدا ہونے والا ہر بچہ گنہگار نہیں بلکہ “معصوم” ہوتا ہے)

چنانچہ عیسائیوں کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے جارج جیکب کو چھ ماہ کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس پر بدترین تشدد کیاگیا۔

جیل سے واپسی پر اس نے مذہب کی کھلم کھلا مخالفت ترک کرکے اپنا انداز تبدیل کردیا۔

اس نے مذہب کے مخالف افکار کو بیان کرنے کے لیے ایک نیا لفظ استعمال کرنا شروع کیا اور یہ لفظ تھا “سیکولرازم”۔

یہ لفظ بذات خود مذہب مخالف ہے۔ مشہور مذہبی عقیدہ ہے (جس پر اسلام ، عیسائیت اور یہودیت تینوں متفق ہیں) کہ اللہ تعالیٰ وقت اور جگہ کی قید سے ماورا ہےجبکہ انسان وقت کا بھی پابند ہے اور جگہ کا بھی۔ دوسری طرف پادریوں نے بے چارے عیسائیوں پر قسم قسم کی پابندیاں عائد کررکھی تھی کہ اگر تم خدا کے قریب جانا چاہتے ہو تو تمہیں دنیا ترک کرکے راہبانیت اختیار کرنا پڑے گی ورنہ راہبوں کی خدمت کرنی پڑے گی اور ان کی ہر بات کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کرنا پڑے گا۔

مذہب مخالف طبقات جو انسان کی محدود زندگی سے خدا کا عمل دخل ختم کرنا چاہتے تھے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ خدا وقت اور زمانے سے ماورا ہے جبکہ انسان “سیکولارس” ہے۔ سیکولارس قدیم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے “وقت کے اندر محدود”۔ چونکہ انسان نہ خدا کا مقابلہ کرسکتا ہے اور نہ اپنی محدود زندگی میں اس تک پہنچ سکتا ہے اس لیے کم ازکم وہ زمین پر اپنی محدود زندگی تو آزادی سے گزارے۔چنانچہ اسے چاہیئے کہ خدا کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کرکے صرف ایک فلسفہ سمجھے اور وقت کی قید کے اندر اپنی زندگی بھرپور آزادی سے گزارے۔اس فلسفے کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔

اگر ہم غیرجانبداری سے تجزیہ کریں تو ہم کہیں گے 

1620-1704 میں ہونے والا فلسفی سرجان لاک (John Lock)سچا تھا، جس نے لبرل ازم کے تحت خدا کے انکار کا تصور دیا تھا

جارج جیکب ہولیوٹ 1817-1906 بھی ٹھیک کہتا تھا۔ جس نے سیکولر ازم کا فلسفہ پیش کیا۔

اور ان کے علاوہ مذہب مخالف افکار اس زمانے میں بالکل درست تھے،آدم سمتھ ، جان سٹیوارٹ مل، ٹی ایچ گرین، جان ملٹن وغیرہ یہ لوگ بغاوت پر مجبور تھے۔ان کے پاس کوئی اور رستہ ہی نہیں تھا۔ مذہب کی الہامی تعلیمات بری طرح مسخ ہوچکی تھیں۔ مذہب پادریوں کے ہاتھوں اپنی اصل شکل کھو بیٹھا تھا۔صرف روحانیت کے شعبے میں ادھوری راہنمائی کے علاوہ انسان کی زندگی سے مذہب مکمل طور پر خارج ہوچکا تھا۔اگر مذہب اپنی الہامی تعلیمات سے منحرف ہوجائے تو ایسی ہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔

انسان کے ذہن میں ابھرنے والے سوالات کا عیسائیت کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا۔انسان کے سوچنے پر پابندی تھی اور جو زیادہ سوچتا اسےحوالہ زنداں یا پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔

انقلاب فرانس 1792کے بعد جب سیکولرازم کو طاقت ملی تو وہ اپنی طاقت کے نشے میں اندھا ہوگیا۔ اس نے دنیا کے ہر مذہب کو “عیسائیت” پر قیاس کیا اور مذہب کے مقابل خم ٹھونک کر میدان میں آگیا۔

لیکن ابھی دنیا میں ایک مذہب “اسلام” ایسا ہے جس کے پاس الہامی تعلیمات اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔جس کے پاس انسانی حقوق بھی ہیں، آزادی بھی اور مساوات بھی۔جس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی کوئی بھی لبرل یا سیکولرذہن تمنا کرسکتا ہے۔

مخالفین کی متنازعہ بنانے کی بے پناہ کوششوں کے باوجود، قسم قسم کے اعتراضات کرنے کے باوجود،شکوک وشبہات کی آندھیاں چلانے کے باوجود یہ مذہب اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہے۔یہ ہر میدان میں اپنی پوری شان وشوکت سے سر اٹھا کے کھڑا ہے۔

اس کے پاس انسانی زندگی کے مکمل ضابطے ہیں۔جن پر عمل کرنے سے نہ تو عزت نفس پر زد پڑتی ہے اور نہ شخصی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اس کا اصول مساوات انسان کو حقیقی مساوات کا درس دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لبرل ازم یا سیکولرازم نے اسلام کی تعلیمات کے خلاف نہیں بلکہ عیسائیت کی تعلیمات کے مقابل جنم لیا۔

ورنہ مسلمان تو بہت پہلے فلسفے کی وادیوں میں قدم رکھ چکے تھے۔ آزادی فکر کا درس تو بہت پہلے مل چکا تھا، اگر اسلام میں کوئی خامی ہوتی تو 711ء سے 1492ء کے درمیان جب اسپین میں فلسفے اور منطق کا دور دورہ تھا،اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی مفکرین بھی اپنے چراغوں میں فلسفے کی آتش لینے جوق درجوق آتے تھے، وہ بہت آسانی سے اسلام کو اسی کے اصولوں سے غلط ثابت کرسکتے تھے۔اور اسلام کا یہ چیلنج آج بھی پوری دنیا کو ہے۔

“آؤ، اپنے سیکولرازم یا لبرل ازم کا کوئی ایک اصول بھی اسلام کے دیئے گئے اصول سے بہتر ثابت کرو۔

ثوبان تابش

اپنا تبصرہ بھیجیں