جنازے کو کندھا دینے کا مسنون طریقہ

سوال: میت کو کندھا دینے کا مسنون طریقہ بحوالہ ارسال فرمائیں اور کیا کچھ قدم کی بھی اس میں قید ہے؟

سائل:خان ولی پشاور

الجواب حامدا ومصلیا

 میت کی چارپائی چار افراد چاروں جانب  سے اٹھائیں اور تیزی سے قبرستان کی جانب روانہ ہوں۔ میت کو کندھا دینے میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے دائیں کندھے سے میت کی دائیں جانب (جو چارپائی کا بایاں حصہ ہوگا) سر کی سمت سے کندھا دیا جائے اور دس قدم چلا جائے۔پھر میت کی دائیں جانب پیر کی سمت میں موجود پائے سے کندھا دیا جائے اور دس قدم چلا جائے۔پھر اپنے بائیں کندھے سے میت کی بائیں جانب (جو چارپائی کا دایاں حصہ ہوگا) سر کی سمت سے کندھا دیا جائے اور دس قدم چلا جائے۔پھر بائیں جانب پیر کی سمت  میں موجود پائے سے کندھا دیا جائے اور دس قدم چلا جائے۔جنازہ کے ساتھ چالیس قدم چلنا ممکن ہو تو بہتر ہے کہ چالیس قدم چلیں ورنہ کوئی حرج نہیں۔

وفی البدائع: ۲/۳۳۱ قدیمی جدید

ومن أراد إكمال السنة في حمل الجنازة ينبغي له أن يحملها من الجوانب الأربع فيضع مقدم الجنازة على يمينه، ثم مؤخرها على يمينه ثم مقدمها على يساره، ثم مؤخرها على يساره۔۔۔۔وينبغي أن يحمل من كل جانب عشر خطوات لما روي في الحديث «من حمل جنازة أربعين خطوة كفرت أربعين كبيرة»

وایضا فی البدائع: ۲/۳۳۲ قدیمی جدید

والاسراع بالجنازة افضل من  الابطاء

وفی الدر مع الرد : ۳/۱۵۸

(واذا حمل الجنازة وضع)۔۔۔ مقدمها۔۔۔علی یمینه عشر خطوات لحدیث: من حمل جنازة اربعین خطوة كفرت عنه اربعین كبیرة۔ (ثم) وضع (مؤخرها) علی یمنه كذٰلك ثم مقدمها علی یساره ثم موخرها كذالك فیقع الفراغ خلف الجنازة فیمشی خلفها۔

وتحته فی الشامیة: فیمین الحامل یمین المیت ویسارالجنازة ویساره یساره ویمین الجنازة

وفی تقریرات الرافعی:ومن هنا ظهر ان یمین المیت هو یسار النعش ویسار المیت یمین النعش۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ :محمد عثمان خان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۲۴/۲/۱۴۴۱ ھ

2019/10/24

اپنا تبصرہ بھیجیں