جھوٹ سے حاصل کردہ رقم استعمال کرنےکاحکم

فتویٰ نمبر:4089

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎!

خالد کے والد کے انتقال کے بہت عرصہ گزرنے پر بھی ریٹائرڈ منٹ کے پیسے خالد اور انکے بھائیوں کو نہیں مل رہے تھے پھر کسی نے خالد کو مشورہ دیا کہ تم یہ درخواست لکھو کہ خالد کی ایک بچی 3 سال کی ہے اسکا حصہ بھی ہے تو اب مسئلہ یہ ہے کہ خالد کو اب ندامت ہو رہی ہے کہ اسنے جھوٹ بولا ہے تو اب وہ کیا کرے اور جو حصہ 3 سالہ بچی کو ملے گا اسکا کیا کرے،برائے ہربانی جلد جواب عنایت فرمائیں۔

والسلام

الجواب حامداو مصليا

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎!

صورت مذکورہ میں اگر اس رقم کا ملنا اس حیلے کے بغیر ممکن نہیں تو اپنا حق وصول کرنے کے لیے تعریض سے کام لے تعریض کا مطلب ہے کوٸی ایسی بات کہنا جس کے دو یا زیادہ مطلب ہوں، سننے والا اس کا ظاہری اور زیادہ واضح مطلب سمجھے جبکہ کہنے والا اس کا دوسرا معنی مراد لے۔

اگر تعریض سے بھی بات نہ بن پاٸے تو بعض علما نے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے بقدر ضرورت جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن صرف اپنا حق ہی وصول کرے. اس سے زیادہ نہیں ۔سوال میں مذکور صورت میں صرف ریٹائرمنٹ کی رقم لینا کسی حیلے بہانے سے درست ہے، اس سے زیادہ رقم نکلوانا بچی کے نام پر درست نہیں ۔اگر بچی کے نام پر بھی رقم حاصل کرلی ہے تو بچی کے نام پر لی جانے والی رقم کو اپنے استعمال میں لانا درست نہیں اگر واپس کرنا ممکن ہو تو واپس کر دیں، واپسی کرنے میں عزت وجان کا خوف ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دے۔

عن سفیان بن اسید الخضرمی قال سمعت رسول اللہﷺ یقول ”کبرت خیانة ان تحدّث اخاک حدیث ھو لک بہ مصدق وانت بہ کاذب “رواہ ابوداوٗد 

(مشکوة:٢/ ٤١٣)

عن ابی اسامہ قال قال رسول اللہﷺ ”یطبع المٶمن علی الخلال کلھا الا الخیانہ والکذب“ رواہ احمد والبھیقی فی شعب الایمان عن سعد ابن ابی وقاص 

(المشکوة: ٢/ ٤١٤)

قال الحصکفی ؒ : ”الکذب مباح لاحیاءحقہ ودفع الظلم عن نفسہ المراد التعریض لان عین الکذب حرام“

(ردالمحتار:٥/ ٢٢٤ )

”الکذب مباح لاحیاءحقہ ودفع الظلم عن نفسہ والمراد التعریض لان عین الکذب حرام “(فی الشامی :” واعلم ان الکذب قد یباح وقد یجب والضابط فیہ کما فی تبیین المحارم وغیرہ عن الاحیاء ان کل مقصود یمکن التوصل الیہ بالصدق والکذب جمیعا فالکذب فیہ حرام وان امکن التوصل الیہ بالکذب وحدہ فمباح ان ابیح تحصیل ذلک المقصود وواجب ان وجب تحصیلہ“ (الشامی: کتاب الحضروالاباحة/ باب الاستبراء :٩/ ٦١٢ زکریا )

”وظاھرہ مفھومھا انہ ان لم یکن عنہ مندوحة فالکذب لا یحرم عند حاجة معتبرة شرعا ، وھی التی وقع ذکرھا فی حدیث اسماء من الامور الثلاثة ۔

ویٶیدہ ایضا قصة الحجاج بن علاط التی اخرجھا النساٸی و الحاکم فی استٸذانہ النبی ﷺ ان یقول عنہ ماشاء لمصلحة فی استخلاص مالہ من اھل مکة واذن لہ النبی ﷺ : فاخبر اھل مکة ان اھل خیبر ھزموا المسلمین فانہ یحتمل التعریض الا ان یقول : ان الرواة تصرفوا فی حکایة لفظہ او یقال : انہ کان من مواضع الضرورة والمبالغة حد الاضطرار “واللہ سبحانہ تعالی اعلم 

(تکملة فتح الملھم: کتاب الجھاد والسیر : باب جواز الخدع فی الحرب ٣/ ٣٣ : االمکتبة الاشرفیة )

والأصل أن المستحق بجہۃ إذا وصل إلی المستحق بجہۃ أخریٰ، اعتبر واصلا بجہۃ مستحقۃ إن وصل إلیہ من المستحق علیہ وإلا فلا۔ (الدر المختار، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد، مطلب: رد المشتري فاسدًا إلی بائعہ ۵؍۹۲ دار الفکر بیروت، ۷؍۲۹۲ زکریا)

ولو أطعم الغاصب المغصوب مالکہ برئ، وإن لم یعلمہ لوصول عین مالہ إلیہ۔ (سکب الأنہر / آخر کتاب الغصب ۴؍۱۰۰، مجمع الأنہر ۴؍۱۰۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع ۶؍۳۸۵)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

✍بقلم :بنت عبدالغفور 

قمری تاریخ:٢جمادی الاخری ١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ:٧فروری ٢٠١٩ ۶

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں