جس جگہ پیدل سفر ۴۸ میل نہ بنتا ہو ، جبکہ گاڑی میں سفر ۴۸میل ہوتو قصر کا حکم اور وہاں امامت پر اجرت کا حکم

سوال:اسکول جہاں واقع ہے وہاں ایک مسجد ہے جس کا امام مقرر نہیں ،سائل وہاں تقریباً ۱۲ دن گزارتے ہیں اس جگہ کو پیادہ ۸ گھنٹے کا سفر ہے اور گاڑی میں ۴ گھنٹےسفر ہے یعنی گاڑی میں ۴۸ میل سے طویل سفر ہے ،تو ان لوگوں کی امامت بغیر تنخواہ جائز ہے یا ناجائز ہے ؟

الجواب حامداً ومصلیاً

جس جگہ اسکول واقع ہے اگر وہاں تک کا پیادہ سفر صرف دن میں عام رفتار کے ساتھ ضروریا ت کے لئے ٹھہرنے اور رات میں آرام کرنے کے باوجود تین دن سے کم ہو تو ایسی صورت میں سائل اپنے شہر سے باہر راستہ میں اور اس جگہ (جہاں کا سفر تھا )مسافر نہیں ہوگا(۱) ۔

اور نماز پوری پڑھے گااور امامت کرانے کی صورت میں پوری نماز پڑھائے گا۔

            اور جبکہ یہی سفر گاڑی میں اڑتالیس میل سے طویل ہے تو اس صورت میں سائل اپنےشہر سے باہر نکلتے ہی مسافر ہوجائے  گا(۲)۔

اور چونکہ اس جگہ ۱۵ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہے اس لئے وہاں مسافر ہوگا ۔

مسافر کو چار رکعت والی فرض نماز دو رکعت پڑھنی ہوتی ہے اسلئے بہتر یہ ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز میں امام نہ بنے خصوصاً ایسی جگہ جہاں لوگ مسائل سے ناواقف ہونے کی بناء پر تشویش میں مبتلاہوں ۔

            سائل کو چاہئے کہ وہ کم از کم پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے اسی جگہ ایک مرتبہ مقیم ہوجائے ،اس صورت میں وہ جگہ اس کا وطن ِ اقامت بن جائے گا اور نماز پوری پڑھائے گا ۔

            اب جب تک وہاں سے کلی طور پر جانے کا ارادہ نہ ہو بلکہ سامان وغیرہ اپنے رہائشی مکان موجود ہو تو ایسی صورت میں صرف سفر کرلینے سے  یہ وطن ِ اقامت ختم نہیں ہوگا(۳)

 اور آئندہ اگر پندرہ دن سے کم کی نیت سے بھی اس جگہ ٹھہرے گا تو وہ مقیم ہی ہوگا اور نماز پوری پڑھائے گا۔

            نیز یہاں پر امامت تنخواہ کے بغیر کرنا جائز ہے اسمیں کوئی حرج نہیں ۔

            چناچہ درِ مختار میں ہے :

 الدر المختار – (2 / 121)

 ( من خرج من عمارة موضع إقامته )…. (قَاصِدًا)…. (مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَلَيَالِيِهَا) مِنْ أَقْصَرِ أَيَّامِ السَّنَةِ وَلَا يُشْتَرَطُ سَفَرُ كُلِّ يَوْمٍ إلَى اللَّيْلِ بَلْ إلَى الزَّوَالِ…. (بِالسَّيْرِ الْوَسَطِ مَعَ الِاسْتِرَاحَاتِ الْمُعْتَادَةِ)…. وَلَوْ لِمَوْضِعٍ طَرِيقَانِ أَحَدُهُمَا مُدَّةُ السَّفَرِ وَالْآخَرُ أَقَلُّ قَصَرَ فِي الْأَوَّلِ لَا الثَّانِي.(صَلَّى الْفَرْضَ الرُّبَاعِيَّ رَكْعَتَيْنِ)

البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي – (2 / 147)

وَطَنِ الْإِقَامَةِ يَبْقَى بِبَقَاءِ الثَّقَلِ وَإِنْ أَقَامَ بِمَوْضِعٍ آخَرَ اهـ.(ص:۱۳۶/۲)۔۔فقط

الجواب صحیح

سعید احمد

الجواب صحیح

محمد عبد المجید دین پوری

التخريج

(۱)الفقه الإسلامي وأدلته-أ. د. وهبة الزحيلي – (2 / 476)

أقل ما تقصر فيه الصلاة مسيرة ثلاثة أيام ولياليها من أقصر أيام السنة في البلاد المعتدلة  بسير الإبل ومشي الأقدام ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل  بل أن يسافر في كل يوم منها من الصباح إلى الزوال (الظهر) فالمعتبر هو السير الوسط مع الاستراحات العادية

(۲)اللباب في شرح الكتاب – (1 / 52)

لو كان موضع له طريقان: أحدهما في البر وهو يقطع في ثلاثة أيام، والثاني في البحر وهو يقطع في يومين إذا كانت الرياح مستوية، فإنه إذا ذهب في طريق البر يقصر وفي الثاني لا يقصر وكذا العكس

العناية شرح الهداية – (2 / 358)       

إذَا كَانَ لِمَوْضِعٍ طَرِيقَانِ : أَحَدُهُمَا فِي الْمَاءِ يُقْطَعُ بِثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهَا إذَا كَانَتْ الرِّيحُ هَادِيَةً : أَيْ مُتَوَسِّطَةً  وَالثَّانِي فِي الْبَرِّ يُقْطَعُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ لَا يُعْتَبَرُ أَحَدُهُمَا بِالْآخَرِ  فَإِنْ ذَهَبَ إلَى طَرِيقِ الْمَاءِ قَصَرَ ، وَإِنْ ذَهَبَ إلَى طَرِيقِ الْبَرِّ أَتَمَّ  وَلَوْ انْعَكَسَ انْعَكَسَ الْحُكْمُ

(۳)مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر – (1 / 243)

 كموطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل لا بالسفر أي لا يبطل الوطن الأصلي بالسفر بل بمجرد دخول المسافر إلى وطنه الأصلي يصير مقيما ولا يفتقر إلى نية الإقامة.

اپنا تبصرہ بھیجیں