جس پیکنگ پر تصویر بنی ہو اس کی خریدوفروخت کا حکم ،تصویر کا متبادل حل

مفتی صاحب!

السلام علیکم

 ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا۔ سوال کی مختلف شقیں ترتیب وار عرض ہیں۔

۱۔  آج کل جو انڈر گارمنٹس (خواتین کے مخصوص کپڑے ) چائنہ وغیرہ سے یہاں امپورٹ ہوتی ہیں اس کی پیکنگ وغیرہ پر خواتین کی تصاویر بنی ہوئی ہوتی ہیں اب اگر کوئی شخص چائنہ سے امپورٹ کرکے یہاں اس کا کاروبار کرے تو اس کو ان تصاویر کو ہٹانا ضروری ہے یا ایسے ہی اس کو آگے بیچ سکتا ہے؟

ان تصاویر کو ہٹانے سے کچھ مشکلات پیش آتی ہیں ایک تو یہ کہ اس پر سائز وغیرہ سب لکھا ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر اس کو ہٹادیں تو بیچنا ہی مشکل ہوجائیگا کیونکہ کسٹمر تو اسی تصویر پر دیکھتا ہے کہ اندر کیا چیز ہے ہر ہر پیکٹ کھول کر اس کو نہیں دکھایا جا سکتا.

2۔ اگر ہم اپنی پراڈکٹ یہاں تیار کرتے ہیں تو اس میں بھی مذکورہ بالا مشکلات پیش آتی ہیں تو کیا ہم اس پر تصویر چسپاں کر سکتے ہیں.؟ اس طور پر کہ کسی خاتون کو وہ چیزیں پہنا کر چہرہ کے علاوہ باقی حصہ کی تصویر لے لی جائے اور اس کو چسپاں کردیا جائے؟

3۔(الف) یا Dummy کو وہ چیزیں پہنا کر تصویر لیکر اس کے اوپر چسپاں کر دیں.(ب)یا ہم ڈمی Dummy کو پہنا کر دکان کے باہر رکھ دیں ؟ براہ کرم رہنمائ فرمائیں

سائل:محمد حارث

03314425934

الجواب حامداومصلیا

1۔۔۔سوال میں مذکور صورت میں خواتین  کے مخصوص لباس  کی پیکنگ پر موجود عریاں  تصاویراپنی پروڈکٹ کی تشہیر ،یا سائز وغیرہ ظاہر کرنے کے لیے  ہوتی ہیں ۔اصلاً   ان تصویروں کو بیچنا مقصود نہیں ہوتا ۔بلکہ کپڑا بیچنا اور خریدنا مقصود ہوتا ہے، لہٰذاخواتین کے انڈر گارمنٹس کو خریدنا یا بیچنا تصویر کو بیچنا یا خریدنا نہیں کہلائے گا، اس لیے ان چیزوں کی  اسی حالت میں خرید وفروخت کرنا جائز ہے اوراس صورت میں  خواتین کے مخصوص کپڑوں کو فروخت کرنے کی مد میں ملنے والی آمدنی کو  بھی حرام نہیں کہا جائے گا۔ البتہ کمپنی سےمطالبہ کیا جائے کہ وہ غیر شرعی تصاویر نہ بنائے۔

شرح السير الكبير (ص: 1051)

“ألا ترى أن المسلمين يتبايعون بدراهم الأعاجم فيها التماثيل بالتيجان، ولا يمتنع أحد عن المعاملة بذلك. وإنما يكره هذا فيما يلبس أو يعبد من دون الله من الصليب ونحوها”

جواہر الفقہ ۷؍۲۶۳ زکریا

البتہ اگر تصویر اصل مقصود نہ ہو، مثلاً تصویر دار اخبار یا مصور ڈبے والی کوئی استعمالی چیز، تو ایسی چیزوں کی بیع وشراء درست ہے۔

کفایت المفتی ۹/۲۳۵

“البتہ ایسی اشیاءجن میں تصویر کا خریدنا بیچنا مقصود نہ ہو ،جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے،مگر تصویر کی بیع و شراءمقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے”

وفی الفقه البیوع:۱/۳۲۱

اما اذا كان المبیع شیئا آخر من المباحات وهو مشتمل علی صور فتدخل فی البیع تبعا۔ فیجوز بیعها۔ ولكنها ربما تشتمل علی صور ممنوعة۔وكذلك ما عمت البلوی  من  ان العلب التی  تعبا بها الاشیاء المباحة ،یشمل اکثرها علی صور،فلا یمنع من بیعها اذا كان المقصود الاشیاء المباحة دون الصور

2۔۔۔ واضح رہے جاندار کی تصویر کسی گتے یا کاغذ وغیرہ پر بنانے یا چھاپنے میں  اگر دیکھنے والے کو تصویر کی شکل مکمل واضح ہوتی ہو تو ایسی   تصویر  بنانا   ناجائز ہے  رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: “سب سے سخت ترین عذاب قیامت کے دن تصویر بنانے والوں کا ہوگا”۔ہاں ! بدن کے متفرق اعضاہوں  یا پورا جسم ہو لیکن سر اور چہرہ تصویر میں نہ آتا ہو یا چہرہ آتا ہو لیکن اس کے نقوش نہ ہوں یا دھندلے ہوں  تو اس  کی  تصویر بنانے کی گنجائش ہے۔ لیکن تصویر بناکر اس  کو پراڈکٹ  کی پیکنگ میں استعمال کرنے یا اس کے ذریعے پراڈکٹ کی تشہیر کرنے  میں درج ذیل تفصیل ہے:

اگر آپ اپنی پراڈکٹ تیار کررہے ہیں تو اس میں تشہیر کے لیے عریاں خواتین  کی تصاویر استعمال کرنا  ناجائز ہےاگرچہ چہرہ شامل نہ ہو؛ کیونکہ نامحرم خواتین کا پورا بدن ستر میں داخل ہے   اور خواتین کےمخصوص  لباس کی تشہیر میں  پورا جسم برہنہ دکھایا جاتا ہے جس کی قطعا اجازت نہیں۔البتہ اگر تشہیر کی غرض سے خاتون کی تصویر مخصوص لباس پہنا کر اس طرح لی جائے کہ خاتون کا جسم  لباس سے ڈھکا ہوا ہو جس سے جلد کی رنگت  اور جسم کے نشیب وفراز ظاہر نہ ہوں اورچہرہ بھی تصویر میں شامل نہ ہو تو  ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔لیکن اگر چہرہ بھی تصویر میں شامل کرکے پرنٹ کردیا گیا تو یہ صورت بھی ناجائز ہے۔

صحيح البخاري (7/ 167)

سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ المُصَوِّرُونَ»

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 648)

(أو كانت صغيرة) لا تتبين تفاصيل أعضائها للناظر قائما وهي على الأرض، ذكره الحلبي (أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لا تعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره لأنها لا تعبد

فیض الباري ۴؍۳۸۲

واعلم أن فعل التصویر حرامٌ مطلقًا أي تصویر الحیوان، سواء کانت صغیرةأو کبیرة، مجسمةً أو مسطحةً ممتهنة أو موقرة

فتاوی دینیہ میں ہے:  5/ 151

بدن کے ہرایک عضو  الگ ہوں یا سر اور چہرہ کا حصہ تصویر میں نہ آتا ہو تو اس میں گنجائش ہے۔

 کتاب النوازل جلد 16/ 527

یہی رائے اَنسب معلوم ہوتی ہے کہ جس چیز کو اِصالۃً دیکھنا جائز ہے، اُس کی تصویر کو دیکھنا بھی جائز ہو۔

3۔۔۔ (الف) ڈمی کی تصاویر لے کر اپنی پروڈکٹ پر چسپاں  کرکے ڈمی کے ذریعے تشہیر کی جاسکتی ہے۔ اس میں بھی ضروری ہے کہ ڈمی کا چہرہ نہ بنایا جائے نیزڈمی کو ایسا رنگ دیا جائے جس سے اس کا  ڈمی ہونا واضح رہے۔جسم ہونے کا گمان نہ ہو۔

(ب) ڈمی  کو مخصوص کپڑے پہنا کر ڈمی کے ذریعے  پروڈکٹ کی تشہیر  کرنے کی گنجائش ہے بشرطیکہ Œڈمی ایسی ہو کہ اس کے چہرے کے اعضا  بالکل واضح طور پر نہ بنائے جائیں اس کا چہرہ کاٹ دیا جائےیا اس پر کوئی کپڑا ڈال دیا جائے۔

صحيح مسلم (3/ 1670)

عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أُصَوِّرُ هَذِهِ الصُّوَرَ، فَأَفْتِنِي فِيهَا،قَالَ: أُنَبِّئُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ، يَجْعَلُ لَهُ، بِكُلِّ صُورَةٍ صَوَّرَهَا، نَفْسًا فَتُعَذِّبُهُ فِي جَهَنَّمَ» وقَالَ: «إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا، فَاصْنَعِ الشَّجَرَ وَمَا لَا نَفْسَ لَهُ»

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 226)

(اشترى ثورا أو فرسا من خزف) لأجل (استئناس الصبي لا يصح و) لا قيمة له (لا يضمن متلفه وقيل بخلافه) يصح ويضمن وعن أبي يوسف يجوز بيع اللعبة وأن يلعب بها الصبيان (درمختار) (قوله من خزف) أي طين قال ط: قيد به لأنها لو كانت من خشب أو صفر جاز اتفاقا فيما يظهر لإمكان الانتفاع بها

الموسوعة الفقهية الكويتية (12/ 123)

قال الدردير في تعليل تحريم النظر: لأن النظر إلى الحرام حرام ولا يحرم النظر إلى الصورة المحرمة من حيث هي صور عند الحنابلة.

أن النصارى صنعوا لعمر رضي الله عنه حين قدم الشام طعاما فدعوه،فقال: أين هو؟ قال: في الكنيسة. فأبى أن يذهب: وقال لعلي رضي الله عنه: امض بالناس فليتغدوا. فذهب علي رضي الله عنه بالناس فدخل الكنيسة، وتغدى هو والناس، وجعل علي ينظر إلى الصور، وقال: ما على أمير المؤمنين لو دخل فأكل۔

ولم نجد نصا عند الحنفية في ذلك. لكن قال ابن عابدين: هل يحرم النظر بشهوة إلى الصورة المنقوشة؟ محل تردد، ولم أره، فليراجع. فظاهره أنه مع عدم الشهوة لا يحرم.أن الرجل إذا نظر إلى فرج امرأة بشهوة، فإنها تنشأ بذلك حرمة المصاهرة؛ لكن لو نظر إلى صورة الفرج في المرآة فلا تنشأ تلك الحرمة؛ لأنه يكون قد رأى عكسه لا عينه. ففي النظر إلى الصورة المنقوشة لا تنشأ حرمة المصاهرة من باب أولى. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

یکم ذو القعدہ۱۴۴۱ھ

23جون2020

اپنا تبصرہ بھیجیں